وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا ملتان ٹی ہائوس میں اپنی دستاربندی کے موقع پراظہارخیال

119
APP31-10 MULTAN: March 10 - Foreign Minister Shah Mehmood Qureshi addressing during Turban Tying Ceremony organized by Khabrain Media Group at Tea House. APP photo Safdar Abbas

ملتان ۔10مارچ(اے پی پی)وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ پاکستان کاامتحان ابھی ختم نہیں ہواامتحان جاری ہے ،ہمیں بہت مشکل حالات میں حکومت ملی لیکن ہم تمام مسائل اورمشکلات سے خوش اسلوبی کے ساتھ نکل رہے ہیں، اب تبدیلی کاآغاز ہوچکاہے ،حالات بدل رہے ہیں اورامیدکی کرن روشن ہوچکی ہے ۔ ان خیالات کااظہارانہوںنے اتوار کو ملتان ٹی ہاﺅس میں روزنامہ خبریں کی جانب سے اپنی دستاربندی کی تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔ وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے کہاکہ مجھے وہ دن بھی یادہے جب اسی وزارت خارجہ سے میں نے ریمنڈڈیوس والے معاملے پراصولی موقف اپناتے ہوئے استعفیٰ دیاتھا۔اس وقت ایک سینیٹرنے ایک محفل میںکہاتھاکہ شاہ محمودنے امریکہ کے ساتھ بگاڑلی ہے اس کاسیاسی مستقبل تاریک ہوگیاہے اوروہ اب تاریخ کاحصہ بن چکاہے ۔ انہوںنے کہاکہ چھ ماہ قبل جب وزیراعظم عمران خان نے مجھ پراعتماد کرتے ہوئے وزارت خارجہ کاقلمدان مجھے سونپا توکیفیت یہ تھی کہ ایک طرف ہمارامغربی پڑوسی افغانستان دنیا کے ہرفورم پراپنی تمام مشکلات پاکستان کے کھاتے میں ڈالتاتھا اورکہتاتھاکہ پاکستان میں دہشت گردوں کی آماجگاہیں ہیںجہاں سے وہ آکردہشت گردی کرتے ہیں ۔ تودوسری جانب مشرقی سرحدپرہمارادوسراپڑوسی بھارت بھی ہرفورم پرہماری مخالفت کرتاتھا۔ بلکہ نریندرمودی تواب بھی یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو سفارتی طورپرتنہاءکرنا ہماری پالیسی کاحصہ ہے ۔ ہمارے ایک اورپڑوسی ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف جب پاکستان آئے توانہوںنے کہاکہ جنداللہ کے لوگ یہاں سے ایران جاکر دہشت گردی کرتے ہیں ۔ چین کی جانب سے کہاجاتاتھاکہ مشرقی ترکستان کی شدت پسند تنظیم ای ٹی آئی ایم کی جانب سے وہاں کارروائیاں کی جاتی ہیں اسی طرح مشرقی وسطیٰ میں بھی جی سی سی کے ارکان تقسیم تھے ۔ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اورقطرکے ہمارے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیںلیکن یہ تمام ملک تحفظات کاشکارتھے سارک تنظیم کو بھارت نے عملا ََیرغمال بنارکھاتھااوراس کے اجلاس میں بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج تقریر کے بعد پاکستانی وزیرخارجہ کی بات سنے بغیر چلی گئی تھیں۔ اگست 2017ءمیں امریکہ نے جنوبی ایشیاءکے بارے میں اپنی پالیسی کااعلان کیاجس میں یہ کہاگیاکہ وہ بھارت کو افغانستان میں زیادہ رول دیناچاہتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ پاکستان اورامریکہ کے تعلقات ہمیشہ سے اتارچڑھاﺅکاشکاررہے ،مشرف دورمیں ہم امریکہ کے قریبی اتحادی تھے۔جب ہم نے اقتدارسنبھالاتوصورتحال مختلف تھی ۔ ہرطرف سے پاکستان کوتنہاکرنے کی کوششیں جاری تھی ، پاکستان کو نیچا دکھانے کےلئے بہت سے تانے بانے بنے گئے ،سابق دورمیں پاکستان کوایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں بھی ڈالاگیا مشرقی اورمغربی دونوں سرحدوں سے ہم دباﺅکاشکارتھے ۔دوسری جانب معاشی صورتحال بھی بہترنہیں تھی ، پی آئی اے ،سٹیل ملزسمیت کئی ادارے دیوالیہ ہوچکے تھے ۔کرپشن کے نتیجے میں اداروں کی کام کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہوچکی تھی ۔انہوںنے کہاکہ ہمیں جن حالات میں ذمہ داری سونپی گئی ان میں بہتری لانا اورملک کومسائل سے نکالنا ایک امتحان ہے لیکن ہم اللہ کی رحمت سے ناامیدنہیں ، مجھے یقین ہے کہ پاکستان رہتی دنیا تک کےلئے قائم ہوا ہے۔ انہوںنے کہاکہ جنہوںنے پاکستان کو بنتے دیکھا وہ جانتے ہیں کہ یہ ملک کتنی جدوجہداورقربانیوں کے نتیجے میں قائم ہوا اوروہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پھریہ ملک کیسے ٹوٹا۔ وزیرخارجہ نے کہاکہ آج بعض قوتیں بہت سے تنظیموں کوجنم دے رہی ہیں ، بی ایل اے کیاہے اوراس کے تانے بانے کہاں جڑتے ہیں یہ آپ مجھ سے بہترجانتے ہیں۔ ہم نے مل کراس آزمائش سے نبردآزماہوناہے ۔ عوام، افواج پاکستان اوردانشور سب مل کر پاکستان کو اس بحران سے نکالیں گے ۔ میں پہلی بارملک میں 1965ءوالاجذبہ دیکھ رہاہوں ۔وزیرخارجہ نے مزیدکہاکہ اوآئی سی کے اجلاس میں بھارت کو مہمان خصوصی بنایاگیاجواسلامی کانفرنس تنظیم کانہ رکن ہے نہ مبصرلیکن ہم نے ان حالات میں پاکستان کادفاع کرناہے۔انہوںنے کہاکہ اب لوگ ہماری بات سن رہے ہیں اورسمجھ رہے ہیں حالات بدل رہے ہیں افغانستان میں سترہ برس سے جنگ جاری ہے جس میں ایک ہزار ارب ڈالرخرچ کئے گئے ، جدیدترین ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے باوجود افغانستان کا46فیصدرقبہ آج بھی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے ۔ انہوںنے کہاکہ جب عمران خان یہ کہتے تھے کہ طالبان کے ساتھ معاملات مذاکرات کے ذریعے طے کئے جائیں توانہیں طالبان خان کہاجاتاتھالیکن آج دنیا نے پاکستان کاموقف تسلیم کرلیا وہ دنیا جوطالبان کے ساتھ سترہ سال تک آزمائش میں رہی آج پاکستان کے موقف کوتسلیم کرتی ہے ۔ امریکہ اورطالبان دوحہ میں آمنے سامنے بیٹھ کر مذاکرات کررہے ہیں ۔انہوںنے کہاکہ پاکستان افغانستان میں امن اوراستحکام چاہتاہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ اس کافائدہ پاکستان کو پہنچے گا۔انہوںنے کہاکہ امن کے عمل کاآغازہورہاہے یہ کوئی آسان کام نہیں تھا جولوگ وہاںخرابی پیداکرناچاہتے ہیں وہ اب بھی سرگرم ہیں بہت سے لوگوں کو افغانستان میں امن پسندنہیں،بھارت نے وہاں تین ارب ڈالرلگارکھے ہیںامن کے عمل سے اس کاملیامیٹ ہوگیا۔ان کی سوچ ہمارے برعکس ہوگی ۔انہوںنے کہاکہ ناامیدی میں امیدکی ایک کرن ضرورروشن ہوئی ہے کہ شاید گفت و شنید سے ایساراستہ نکل آئے کہ جس سے وہاں امن اوراستحکام ہوجائے اوراگرایساہوگیا توپاکستان کی معیشت کے لئے بہترہوگا،دوطرفہ تجارت بڑھے گی اورراستے کھلیں گے ترکمانستان سے گیس پائپ لائن بچھائی جائے گی جوتوانائی کے بحران کوحل کرنے میں مدددے گی ۔