کراچی۔17مئی (اے پی پی):سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ 2008 سے 2014 تک وزیر اعلی سندھ نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے سندھ کے کاشتکاروں کا پانی چوری کیا، نہروں سے 8330 ڈائریکٹ پانی کے کنیکشن منظور کئے گئے،ہاریوں کے حصے کا پانی بھی پی پی کے لوگوں میں تقسیم کیا گیا ہے،آج بھی ٹیل کے کاشتکاروں کو پانی نہیں ملتا ہے، سارا پانی زرداری فیملی کے لوگوں و دیگر اپنے من پسند لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے دیا گیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر ان کے ہمراہ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے پارلیمانی لیڈر بلال غفار، اراکین سندھ اسمبلی ڈاکٹر عمران شاہ، جمال صدیقی، شہزاد قریشی، شاہنواز جدون اور دیگر بھی موجود تھے۔ حلیم عادل شیخ نے کہا کہ علی حسن زرداری،غلام قادرمری،ملک اسد سکندر،کمال چانگ اور منظوروسان سمیت دیگر نے ناجائزکنیکشن سے پانی چوری کیا، ٹیل کے آبادگارکوپانی نہیں ملتا ،سندھ میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کی گئی ہے، سندھ کے وڈیرے وزیرمشیرپانی چوری کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے حکمرانوں نے سندھ کے قدیم گوٹھوں کے ساتھ جو کیا وہ ایک الگ داستان ہے، سندھ کی باتیں کرنے والے سندھ کی زمینوں کو فروخت کر چکے ہیں، زرعی زمین بنجرہونے کا الزام وفاقی حکومت پرلگا جارہا ہے لیکن سندھ کی زمینوں کو بنجر بنانے میں پیپلزپارٹی کا بڑا ہاتھ ہے، کراچی کوبھی پانی نہیں دیا گیا،کراچی میں پیپلزپارٹی کے لوگوں کے ہائیڈرنٹ ہیں جو پانی فروخت کرتے ہیں، کے فورسفید ہاتھی ہے ڈزائن تبدیل کرکے مسئلے کو پیپلزپارٹی نے بڑھایا ہے۔
حلیم عادل شیخ نے کہا کہ سندھ میں ایماندار غیر سیاسی آبادگارکے لئے پانی نہیں ہے جبکہ سرکاری شخصیات اور وڈیروں نے نہروں سے براہ راست ڈائرکیٹ پائپ لگائے ہوئے ہیں، عام آبادگاروں تک پانی نہیں پہنچتا، ارسامیں سندھ کا نمائندہ موجود ہے،پانی کی تقسیم دستیاب پانی کی بنیاد پر ہوتی ہے، سندھ میں لائیننگ اوربند لگائے وہ کرپشن کی نظرہوگئے جس سے ہر سال سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام صوبوں کوحصے کے مطابق پانی دیاجاتا ہے ،سندھ میں کپاس میں پانی زیادہ دیا گیا۔ بلاول، بشیرخان قریشی یا رسول بخش پلیجو نہیں بن سکتے تو بینظیربھٹو کیسے بن سکتے ہیں،پیپلزپارٹی قومی پارٹی تھی اب صوبائی بن گئی ہے۔
حلیم عادل شیخ نے کہا کہ گذشتہ روزدس لاشیں سندھی بھائیوں کی دیکھیں، دردناک منظرتھا ان کی بھینسیں چوری کرکے لے گئے تھے، تلاش کرناپولیس کاکام تھا لیکن پولیس نے اپنا کام نہیں کیا، ایک ہاری کی کل ملکیت بھینس ہوتی ہے، بھینس کی تلاش میں جانے والوں کو راستے میں ڈاکوئوں نے قتل کیا، دوسرے روزشکارپور میں سات قتل ہوئے، 63 لوگ چارمہینوں میں اغواہوئے ہیں، 15 لوگ ڈاکوئوں کے پاس قید ہیں۔ سندھ میں اغوابرائے تاوان، ڈکیتوں کی کارروائیاں عروج پرہیں۔پہلے ڈاکوشناخت چھپاتا تھا اب توڈہٹائی سے سوشل میڈیا پر شیئر کیئے جاتے ہیں کیونکہ ان کو پتا ہے سارا شیئر اوپر تک وزیروں تک جاتا ہے۔
وزیراعلی ہائوس تک شیئرجاتا ہے، ڈاکو ٹک ٹاک بناتے ہیں کیونکہ خوف ختم ہوگیا ہے، پولیس کو سیاسی بنانے کے بعد وردی کا خوف ختم ہوگیا ہے، آئی جی سندھ کو گرائونڈ پر ہونا چاہے تھا اور کچے میں کیمپ لگانا چاہیے تھا لیکن آئی جی تو آفس تک نہیں آتے، ڈاکوئوں نے اپنی تصاویروائرل کی ہیں، بچوں کے ہاتھ میں کتابوں کی جگہ اسلحہ ہے ،حکومت نے راکٹ لانچرتھما دیئے ہیں،ڈاکوئوں کی تصاویربتارہی ہیں کہ امن وامان تباہ ہے،سندھ میں 756ارب امن وامان پرخرچ ہوئے ہیں، 7880 ارب سندھ میں 13 سالوں میں آئے ہیں ،1650ارب روپے ترقیاتی فنڈ تھے لیکن کہاں خرچ ہوئے نظر نہیں آتے، پی این ڈی ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے،700ارب سے زائد ترقیاتی فنڈن کی رقم کرپشن کی نظرہوگئی۔
حلیم عادل شیخ نے پاکستان کے اداروں سے کہا کہ چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں بڑے ہتھیار کہاں سے آئے ہیں، کرپٹ سندھ حکومت نے بچوں سے کتابیں چھین کر ہتھیار دے دیئے ہیں، بلاول عوام کو جواب دیں یہ ہتھیار ان بچوں کو کس نے دیئے، 2019 پولیس آرڈر آنے کے بعد بدامنی میں اضافہ ہوا ہے، پولیس سیاسی بن چکی ہے، کرنمل کیسز ہیں جس میں قتل، ڈکیتی، رہزنی، ارادہ قتل،چوری، کار لفٹنگ، موبائل سنیچنگ، سمیت دیگر کیسز شامل ہے بڑھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں 2019 میں 48703 کیس رپورٹ ہوئے جبکہ 2020 میں5986 کیس رپوٹ ہوئے جس میں 11158 کیس کا اضافہ ہوا، سکھر کرائم فگر میں 2020 میں 8107 کیس رپورٹ ہوئے 1396کیسز کا اضافہ ہوا، لاڑکانہ میں 2019 میں 7318 کیسز رپورٹ ہوئے 2020 میں 8696 کیسز رپورٹ ہوئے اور 1178 کیسز کا اضافہ ہوا۔ میرپورخاص میں سال 2019 میں 2938 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 2020میں3614 کیسز رپورٹ ہوئے 676 کیسز کا اضافہ ہوا۔ پورے سندھ میں 2019 میں 87162 کیس رپورٹ ہوئے جبکہ پورے سندھ میں 2020 میں 100550 کیس رپورٹ ہوئے اس طرح 2019 کے مقابلے میں 2020 میں 13388 کیس کا اضافہ ہوا۔
یہ راکٹ لانچرز کہاں سے آئے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا پر وائرل تصاویر سندھ حکومت کی ناکامی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو قرضے دیئے جارہے ہیں، عوام کو احساس کیش پروگرام کے تحت مختلف طریقوں سے مدد کی جارہی ہے، پاکستان کی معشیت ترقی کی سمت ہے ہر طرف سے اچھی خبریں آرہی ہیں۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر بلال غفار نے کہا کہ پاکستان کی جی ڈی پی چارفیصد تک چلی جائے گی ،ہمارے ریزرو بڑھ گئے ہیں،روشن ڈیجٹل اکائونٹ میں پیسے پہنچ چکے ہیں، مارچ 2021میں ہمارا روپیہ بہتر پوزیشن میں آگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورو، بونڈ میں ڈھائی ارب کا اندازہ لگایا گیا تھا پانچ ارب روپے کی پیش کش ہوئی ہے۔معشیت اگے بڑھ رہی ہے، روپیہ یوایس ڈالر سے بھی زیادہ مظبوط ہے، 12 سالوں میں لارج مینوفیکچرنگ بڑھ گئی ہیں۔