لاہور۔5مئی (اے پی پی):وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کی طرف سے کچی آبادیوں میں ڈویلپمنٹ کے اعلان سے39 سال سے بنیادی مسائل کے شکار رہائشیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ،لاہور سمیت پنجاب کی 4386 رجسٹرڈ کچی آبادیاں 39 سال سے مالکانہ حقوق سے محروم اوران آبادیوں میں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ۔ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر پنجاب میں 3375 دیہی اور ایک ہزار کے قریب شہری رجسٹرڈ کچی آبادیاں ہیں جن کے لئے پنجاب حکومت کی طرف سے آخری مرتبہ 2008اور2009میں 14 کروڑ 40 لاکھ روپے کے فنڈز جاری کئے گئے وہ فریز ہو گئے،اسی طرح2 ارب 15 کروڑ30 لاکھ روپے کا ترقیاتی پیکج بھی صرف اعلان تک محدود رہا۔
مالی سال 2012اور 13میں بھی 15 کروڑ روپے کا فنڈز کا اجرا کیا جانا تھا جس میں عملی پیش رفت نہ ہو سکی۔رپورٹ کے مطابق متروکہ وقف املاک بورڈ کی طرف سے این او سی نہ ملنے کے باعث 510 رجسٹرڈ کچی آبادیوں کو مالکانہ اسناد بھی نہ مل سکیں جن میں 475 دیہی اور35 اربن کچی آبادیاں شامل ہیں ۔پنجاب کی کچی آبادیوں کی رجسٹریشن کے لئے سروے 1985 میں ہوا تھا جس کے بعد مالکانہ حقوق دیئے جانے تھے۔1987 میں محکمہ بلدیات کے ماتحت ڈائریکٹوریٹ جنر ل آف کچی آبادیز پنجاب کا قیام عمل میں آیا، اب یہ محکمہ محکمہ ریونیو کے ماتحت ہے ،جس کے پاس طویل عرصے سے فنڈز میسر نہیں ،
شہری کچی آبادیوں کو ڈیل کرنے والی ڈویلپمنٹ اتھارٹیز بھی اپنے مسائل اور دیگر اہم منصوبوں کی تکمیل کے عمل میں مصروف ہونے کے باعث کچی آبادیوں کے لیے کوئی کام نہیں کر رہیں جن میں لاہور بھی شامل ہے۔رپورٹ کے مطابق دیہی کچی آبادیوں میں بلدیاتی اداروں نے اپنے اندورنی مسائل کے باعث دودہائیوں سے زائد عرصہ میں ایک بھی سکیم مکمل نہیں کی اور نہ ہی محکمہ ریونیو نے کوئی توجہ دی ہے۔ صوبہ کی 3375 کچی آبادیوں میں سروے کے بعد 1985 سے کوئی ڈویلپمنٹ نہیں کی گئی ،یہ تمام کچی آبادیاں تعلیم، صحت ،صفائی اور تفریحی سمیت دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت نے بھی کچی آبادیوں کے لیے فلیٹس اور تمام ضروری سہولیات کا دعوی کیا جو پورا نہ ہوا،چوہدری پرویز الہی نے بطور وزیر اعلی مالکانہ حقوق کی ڈیڈ لائن بھی دیدی تھی۔اب موجودہ وزیر اعلی مریم نواز نے کچی آبادیوں میں ڈویلپمنٹ کا اعلان کیا ہے جو صرف لاہور کی حد تک ہے، تاہم ابھی تک اس حوالے سے ایل ڈی اے نے کوئی سکیم بھی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کچی آبادیز پنجاب کو نہیں بجھوائی۔ سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ محکمہ ریونیو یا محکمہ مال کے پاس کچی آبادیوں کے مکینوں کا کوئی مصدقہ ڈیٹا موجود نہیں جبکہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کچی آبادیز پنجاب کے پاس بھی نئے سرے سے رجسٹرڈ کچی آبادیوں کا سروے کروانے کی بجائے پرانا ڈیٹا پڑا ہے۔
رپورٹ کے مطابق4386 رجسٹرڈ شہری ودیہی کچی آبادیوں پر کوئی ملکی وغیر ملکی این جی اوز یا ادارہ کام نہیں کر رہا جبکہ مکینوں کی طرف سے بنائی گئی تنظیم بھی ماضی کا قصہ بن گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مکینوں کی طرف سے ڈویلپمنٹ کی بجائے پہلے مالکانہ حقوق دینے کی استدعا کی گئی ہے ۔اس حوالے سے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کچی آبادیز پنجاب کے حکام نے بتایا کہ محکمہ کرائے کی کوٹھی میں ہے اور اس کے پاس کوئی فنڈز بھی نہیں ، بمشکل دفتر عمارت کا کرایہ و یوٹیلیٹی بلز اور ملازمین کی تنخواہیں دیتے ہیں۔
حکام نے مزید بتایا کہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے کچی آبادیوں میں ڈویلپمنٹ شروع کرنے کا اعلان تو کیا ہے لیکن نہ تو کسی ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور نہ ہی بلدیاتی ادارے سے انھیں کوئی سکیم بجھوائی گئی ہے، ان اداروں کی صوبائی سطح پر کوئی کوآرڈینیشن بھی نہیں ۔ رپورٹ کے مطابق کچی آبادیوں کے مکینوں نے اب تک جو بھی ڈویلپمنٹ کی ہے وہ اپنے طور پر کی ہے جس میں پانی، بجلی،سیوریج، ڈرینج، واٹر سپلائی اور گیس وغیرہ شامل ہیں جبکہ پوش و گنجان آبادیوں کے مکینوں پر قبضہ اور خالی کروانے کا خوف بھی منڈلاتا رہتا ہے۔
a