اسلام آباد ۔ 20 دسمبر (اے پی پی) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مذاکرات ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان تصفیہ طلب مسائل کے حل کا واحد راستہ ہیں، سماجی و اقتصادی صورتحال کی بہتری کے لئے مستحکم اور پر امن ہمسائیگی ہماری ضرورت ہے، کرتار پور راہداری سکھ برادری کے دیرینہ مطالبے کو پورا کرنے کے لئے کھولی گئی، پاکستان میں مذہبی آزادی پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لیکن پاکستان پر کیچڑ اچھالنے اور دباﺅ ڈالنے کے لئے کبھی بلیک لسٹ اور گرے لسٹ میں شامل کرنے جیسے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں، بھارت کو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان کی طرف سے ادا کی جانے والی قیمت کا احساس ہونا چاہیے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اور انسانی حقوق کمیشن کے حکام کو خطوط بھی تحریر کئے ہیں، کشمیر کا مسئلہ سیاست سے بالاتر ہے اور ہمیں کشمیر اور پاکستان کا جھنڈا ہاتھ میں تھام کر اظہار یکجہتی کرنا چاہیے اور دنیا میں انسانیت اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کی توجہ اس مسئلہ کی طرف مبذول کرانی چاہیے، طالبان کو تسلیم نہ کرنے والا امریکہ آج ان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے، ابوظہبی مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے، پاکستان پر نکتہ چینی اور چڑھائی کرنے والے آج اس کی تعریفیں کر رہے ہیں، موجودہ حکومت کے دور میں چین اور پاکستان کے درمیان اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو نئی جہت ملی ہے، متحدہ عرب امارات سے ٹوٹا ہوا اعتماد بحال ہوا ہے، سعودی پیکج کے لئے کوئی شرط عائد نہیں کی گئی، جنوری میں متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور فروری میں سعودی عرب کا اعلیٰ سطح کا کاروباری وفد پاکستان کا دورہ کرے گا، یو اے ای سے بھی پاکستان کے لئے اقتصادی پیکج جلد ملنے کی توقع ہے، 23 مارچ کو ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور ملائیشیا کا کاروباری وفد بھی پاکستان آئے گا۔جمعرات کو ایوان بالا میں کرتار پور راہداری پر بھارتی وزیر خارجہ کے بیان کے حوالے سے سینیٹر میاں رضا ربانی کے توجہ دلاﺅ نوٹس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کو وہ تفصیلی بریفنگ دے چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی ہمسایہ ممالک ہیں اور وہ یہ بات تسلیم کرتے رہے ہیں کہ سات عشروں سے ہمارے دوطرفہ مسائل ہیں اور ان مسائل کی بنیاد پر مذاکرات بھی کر چکے ہیں، جامع مذاکرات بھی ہوئے، مذاکرات کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی بھی اپنے ادوار میں مذاکرات کے لئے کوششیں کرتے رہے ہیں، بھارت نے کولڈ سٹارٹ نظریہ متعارف کرایا جو کہ حماقت تھی، اس کے علاوہ نام نہاد سرجیکل سٹرائیکس کی بھی بات کی، ان کی سیاسی ضروریات اور مصلحتوں کو ہم سمجھتے ہیں لیکن ایٹمی قوتیں حادثاتی تصادم کے متحمل بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ ایسا تصادم خودکشی ہو گی، ایسی صورتحال میں مذاکرات کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے، وزیراعظم نے 26 جولائی کو قوم سے خطاب میں امن کی بات کی اور یہ ایک پیغام تھا کہ اگر اس خطے نے ترقی کرنی ہے اور عوام کو غربت اور جہالت سے نجات دلانا ہے تو ہمیں اپنے اندرونی معاملات پر توجہ دینا ہو گی اس کے لئے ہمیں اپنی مغربی اور مشرقی سرحدوں پر امن درکار ہے، بھارتی وزیراعظم نے بھی وزیراعظم عمران خان کے نام اپنے مبارکباد کے پیغام میں اس سوچ کا اظہار کیا کہ مل بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد بھارت کی طرف سے 24 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کی بات کی گئی، جس کے بعد انہوں نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی اور اپنے اندرونی معاملات کی وجہ سے ملاقات منسوخ کر دی کیونکہ بھارت کی پانچ ریاستوں میں الیکشن ہونے والے تھے اور 2019ءمیں اہم انتخابات بھی آ رہے ہیں، بھارتی قیادت میں یہ رائے قائم ہوئی کہ پاکستان کے ساتھ مل بیٹھنے اور ملاقات سے انہیں سیاسی قیمت چکانا پڑے گی اس لئے ملاقات سے اجتناب کیا جائے، جس پر ہمارا جواب بڑا نپا تلا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ پس منظر ہے جس کی وجہ سے بھارت پاکستان کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے امن کا راستہ اختیار کرنے کی بات کی ہے، امن و استحکام سماجی و معاشی ترقی کے لئے ہماری ضرورت ہے، کرتار پور راہدری کھولنے کا مطالبہ سکھ برادری کا پرانا مطالبہ تھا، کرتار پور گوردوارہ سکھوں کا مقدس مقام ہے جہاں پر بابا گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال گزارے تھے، بھارت کو ہم نے اس سلسلے میں مراسلہ بھجوایا جسے پڑھ کر وہاں پر ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جس میں انہوں نے قرارداد منظور کی اور ہمارے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے ہم سے ایک دن پہلے راہداری کا سنگ بنیاد رکھ دیا اور دو وزیر وزیراعظم کی نمائندگی کے لئے راہداری کھولنے کی تقریب میں بھجوائے اور کوئی بھی وزیر اس طرح کی تقاریب میں اپنی حکومت کی منظوری کے بغیر نہیں جاتا، اس کے علاوہ پچاس بھارتی صحافی بھی ان کے ساتھ آئے تھے، ہمارے اس اقدام سے ہماری اقلیتوں اور ہندوستان اور دنیا بھر میں بسنے والی سکھ برادری نے اس پر خوشی کا اظہار کیا اور اس اقدام کا خیر مقدم کیا، امرتسر میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے، بھارتی وزیر خارجہ نے ملک کے اندر انتخابات کے حوالے سے اپنی پہلے سے طے شدہ مصروفیات کا کہہ کر راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت سے معذرت کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی آزادی پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لیکن پاکستان پر کیچڑ اچھالنے اور دباﺅ ڈالنے کے لئے کبھی بلیک لسٹ اور گرے لسٹ میں شامل کرنے جیسے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں، ہمارے ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی اور اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پر امن ہمسائیگی کے خواہاں ہیں، بھارت کو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان کی طرف سے ادا کی جانے والی قیمت کا احساس ہونا چاہیے، ہم نے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں اور عوام کی صورت میں 75 ہزار سے زائد جانوں کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نذرانہ پیش کیا ہے، کافی حد تک ہم دہشت گردوں اور دہشت گردی کو شکست دینے میں کامیاب رہے ہیں جس کا سہرا ہماری بہادر سیکورٹی فورسز اور باہمت عوام کے سر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ہماری ذمہ داری ہے، آج سے ایک سال پہلے امریکہ نے جنوبی ایشیاءکے لئے اپنی حکمت عملی کا اعلان کیا اور اس میں پاکستان کے اتحادی امدادی فنڈ کو بھی منجمد کر دیا گیا جو کوئی امداد نہیں بلکہ ہماری طرف سے خرچ کی جانے والی رقم کی واپس ادائیگی تھی، آئی ایم ایف کے پروگرام کو بھی اس وقت معطل کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف پہلے دن سے کہتی چلی آ رہی ہے کہ جنگ افغان مسئلے کا حل نہیں ہے، افغانستان میں امن مذاکرات سے آئے گا، پاکستان مسلسل افغان عوام کی قیادت میں امن عمل کا حامی رہا ہے، اب اس سلسلے میں بہت بڑی پیش رفت ہوئی ہے، وہ امریکہ جو طالبان کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا، آج ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار ہوا ہے، 17 سال افغانستان میں خون کی ہولی کھیلی گئی، 17 سال میں بڑی نقل مکانیاں ہوئیں، آج بھی 30 لاکھ افغان باشندے پاکستان میں مقیم ہیں، یہ ایک بہت بڑی تبدیلی آئی ہے، آج تسلیم کیا گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی نکالا جانے والا حل ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اوپر جو کچھ مہینے پہلے نکتہ چینی کر رہے تھے، ہم پر چڑھائی کر رہے تھے آج ان کے نمائندے پاکستان کی تعریف کر رہے ہیں، یہ پاکستان کی کامیابی ہے، افغانستان میں امن کے لئے ہم اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، ایسی پیش رفت پہلے نہیں ہوئی، ابوظہبی میں ہونے والی ملاقات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر بھی اس عمل میں شریک ہے، قطر اور سعودی عرب کے تعلقات میں تناﺅ ہے لیکن انہیں بھی اس کے لئے اعتماد میں لیا گیا ہے، ایران جو ہمارا پڑوسی ملک ہے اور وہاں پر بھی افغان پناہ گزین ہے، افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر پر اسے بھی تشویش ہے، ایران کے وزیر خارجہ سے میری دو ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ہمارا موقف ایک ہے، چین کو بھی اس معاملے پر اعتماد میں لیا گیا ہے، ایک طرف چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ ہے اور دوسری طرف قطر اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات معمول پر نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ہم انہیں افغان مسئلے کے حل کے لئے ساتھ لے کر چل رہے ہیں، یمن کے تنازعہ کے حل کے حوالے سے بھی پیش رفت ہو رہی ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے حالیہ دورے کے دوران انکی چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور صدر اشرف غنی سے مثبت ملاقاتیں ہوئیں اور چین، افغانستان اور پاکستان کے سہ فریقی مذاکرات ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات کو وزیراعظم کے دونوں دوروں سے نئی جہت ملی ہے، یمن کا تنازعہ شروع ہونے کے بعد پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اعلیٰ سطح پر ہمارا کوئی رابطہ نہیں تھا، ہم نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ ٹوٹا ہوا اعتماد بحال کیا ہے، وزیراعظم کو سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی، اس موقع پر ان کی شاہ سلمان، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور دیگر سعودی حکام کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں، دوطرفہ علاقائی اور اقتصادی تعلقات پر بات چیت کی گئی، سعودی پیکج کے لئے سعودی عرب نے کسی قسم کی کوئی شرط عائد نہیں کی، ہم نے یمن کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے، مجموعی طور پر پاکستان کو سعودی عرب سے 9 ارب ڈالر کی سہولت ملے گی جس میں ادائیگیوں کے توازن کے لئے تین ارب ڈالر کی امداد اور موخر ادائیگی کے لئے معاونت بھی شامل ہے اس سے پاکستان کی معیشت کو سہارا ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط چونکہ بہت سخت ہوتی ہیں اس لئے ہم نے کوشش کی ہے کہ دیگر عوامل کو بھی ساتھ لے کر چلا جائے، سعودی عرب نے پاکستان میں آئل ریفائنری قائم کرنے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا ہے، فروری میں سعودی عرب کا اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان کا دورہ کرے گا جس کے بعد مزید چیزیں سامنے آئیں گی۔ انہوں نے کہا کہ تین عشروں کے بعد پاکستان کے کسی وزیراعظم کا سعودی عرب کا پہلا سرکاری دورہ تھا، یمن کا تنازعہ پیدا ہونے کے بعد سعودی عرب کا اعلیٰ سطح کا کوئی دورہ نہیں ہوا اور سابق حکومت کے دور میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات بھی رابطے بھی کم ہو گئے تھے، موجودہ حکومت نے ان تعلقات کو نئے سرے استوار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یو اے ای اور خلیجی ممالک ہمارے لئے اس لئے بھی اہم ہیں کہ 45 لاکھ پاکستانی وہاں کام کرتے ہیں جو سالانہ اربوں ڈالر اپنے ملک میں بھجواتے ہیں، یو اے ای کا اعلیٰ سطح کا ایک اہم کاروباری وفد پاکستان میں مواقع کا جائزہ لے کر واپس جا چکا ہے، جنوری کے پہلے ہفتے میں یو اے ای کے ولی عہد پاکستان کا دورہ کریں گے، یو اے ای پاکستان کے لئے ایک اقتصادی پیکج کا بھی اعلان کرنے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی بہت شور مچایا گیا لیکن موجودہ حکومت کے دور میں چین کے ساتھ اعتماد کا رشتہ پہلے سے مضبوط ہوا ہے، اس وقت بھی سی پیک کے حوالے سے مشترکہ تعاون کمیٹی کا اجلاس جاری ہے، سی پیک ایک فلیگ شپ منصوبہ ہے اور پہلے مرحلے میں بنیادی ڈھانچے پر توجہ مرکوز کی گئی، اب ہم روزگار اور عوامی بھلائی کے دیگر منصوبوں کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا ملائیشیا کا دورہ بھی بہت کامیاب رہا، 23 مارچ کو ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور ملائیشیا کا ایک کاروباری وفد بھی پاکستان آ رہا ہے، تین ماہ کے عرصے میں ہم نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بہت بگڑی ہوئی ہے، وہاں پر بربریت اور ظلم و جبر جاری ہے، خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، وزیراعظم عمران خان جمعرات کی شام 6 بج کر 40 منٹ پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے اس معاملے پر ٹیلی فون پر بات کریں گے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اور انسانی حقوق کمیشن کے حکام کو خطوط بھی تحریر کئے ہیں، کشمیر کا مسئلہ سیاست سے بالاتر ہے اور ہمیں کشمیر اور پاکستان کا جھنڈا ہاتھ میں تھام کر اظہار یکجہتی کرنا چاہیے اور دنیا میں انسانیت اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کی توجہ اس مسئلہ کی طرف مبذول کرانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سو اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر پر ہمیں یک زبان ہونا چاہیے۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=126941