وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تمام سیاسی جماعتوں کو جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی دعوت

50
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی چین کے سٹیٹ کونسلر اور وزیر خارجہ وینگ ژی سے ہوانگ شن میں ملاقات

اسلام آباد ۔ 20 دسمبر (اے پی پی) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک جنوبی پنجاب صوبہ نہیں بنتا پی ٹی آئی کی حکومت جنوبی پنجاب کے عوام تک اختیارات کی منتقلی کے لئے آئندہ مالی سال کے آغاز پر سیکرٹریٹ قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور پی ایس ڈی پی میں جنوبی پنجاب کی ترقی کے لئے الگ فنڈز مختص کئے جائیںگے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایوان میں قائد حزب اختلاف نے جنوبی پنجاب صوبہ کے مسئلے پر اپنا نکتہ نظر پیش کیا اور انہوں نے اظہار کیا ہے کہ وہ آگے بڑھنے کے لئے تیار ہے۔ سید خورشید احمد شاہ نے بھی جنوبی پنجاب صوبے کے لئے حمایت کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اس معاملے پر واضح موقف لے چکی ہے اور یہ ہمارے منشور کا حصہ ہے۔ یہ مسئلہ بہت پرانا ہے۔ بتدریج جیسے جیسے یہ وقت گزرتا گیا لوگوں کی آراءبدلتی گئی۔ بہت سے عوامل نے انہیں تقویت دی۔ انہوں نے کہا کہ اگر پسماندگی کو پیمانہ بنائیں تو پنجاب کو نسبتاً ایک ترقی یافتہ صوبہ سمجھا جاتا ہے۔ پنجاب بھی اس حوالے سے تقیسم ہے۔ جنوبی پنجاب کے عوام 1970ءسے اپنے صوبے کے لئے آواز اٹھا رہے ہیں۔ کسی بڑی قومی جماعت نے اس مسئلے کو اونر شپ نہیں دی۔ پیپلز پارٹی اس کا مختلف حوالوں سے ذکر کرتی رہی تاہم ماضی میں پیپلز پارٹی کی مدمقابل مسلم لیگ (ن) اس میں رخنہ ڈالتی رہی۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ایک قانونی تبدیلی آئی ہے۔ اس کے بعد ایک نئی شق ڈال دی گئی کہ جس صوبے نے تقسیم ہونا ہے وہاں کی صوبائی اسمبلی اکثریتی قرارداد منظور کرکے سینٹ کو بھجوائے جس کے بعد آئینی ترمیم کی جائے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں مسلم لیگ (ن) کے پاس دو تہائی اکثریت تھی۔ وہ ہر کام کر سکتے تھے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کے پاس اور آج ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اے این پی‘ پی ٹی آئی سمیت ایوان کی تمام جماعتوں کے اپنے اپنے موقف ہیں تاہم کسی جماعت کی طرف سے صوبہ جنوبی پنجاب کی مخالفت نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے کہ کوئی کسی پر سبقت نہ لے جائے۔ ایسے معاملات میں قومی اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔ ماضی میں تاج لنگاہ مرحوم اس مسئلے پر آواز اٹھاتے رہے۔سابق دور میں جب جنوبی پنجاب صوبے کی بات کی گئی تو یک نہ شد دو شد کی بات کرکے معاملہ کھٹائی میں ڈال دیا گی۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی پنجاب جو ہندوستان کا حصہ بنا وہ ہم سے چھوٹا تھا مگر وقت کے ساتھ اساتھ آبادی اور ضروریات میں اضافہ کی وجہ سے پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ اگر ایوان اس معاملے پر متفق ہے تو ہمیں سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ یہ آئینی ترمیم کا معاملہ ہے جب تک دوتہائی اکثریت نہ ہو یہ ترمیم منظور نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی کو دعوت دی کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں دو تہائی اکثریت بن جاتے ہیں اور صوبہ جنوبی پنجاب قائم کرلیتے ہیں۔ جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے عوام اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ اگر سیاسی اتفاق رائے وجود میں آئے گا تو اس کے بعد ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ ایگزیکٹو آرڈر کے تحت حل نہیں ہو سکتا۔ ایک تجویز یہ بھی آئی کہ جب تک صوبہ نہیں بنتا وہاں کے لوگوں کو انتظامی اختیارات کے لئے سیکرٹری بنا لیتے ہیں مگر اس تجویز کو بھی عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت جنوبی پنجاب کے عوام تک اختیارات کی منتقلی کے لئے سیکرٹریٹ قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ آئندہ مالی سال کے آغاز پر اس معاملے پر پیش رفت کریں گے اور پی ایس ڈی پی میں جنوبی پنجاب کی ترقی کے لئے الگ فنڈ مختص کریں گے۔