وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر سارک وزارتی کونسل کے غیر رسمی ورچوئل اجلاس سے خطاب

126

اسلام آباد ۔ 24 ستمبر (اے پی پی) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سارک کے بانی رکن کی حیثیت سے پاکستان ہمیشہ اس تنظیم کو بے حد اہمیت دیتا ہے، پاکستان انیسویں سارک سربراہ کانفرنس کے اسلام آباد میں انعقاد کی میزبانی کے لئے تیار ہے، مشترکہ مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے علاقائی سطح پر مشترکہ طرز عمل اور سوچ کی ضرورت ہے، سارک اور ان کی ذیلی تنظیموں کے عوام کی زندگیوں پر اثرات ہماری توقعات کے مطابق نہیں آ سکے، عالمی و علاقائی اور دیگر اقوام کے ساتھ اور بھی زیادہ تعاون پر مبنی نتیجہ خیز کوششیں درکار ہیں، سارک کے مبصر ممالک کا درجہ ڈائیلاگ پارٹنر کے طور پر بڑھا دیا جائے، متنازعہ خطوں کے سٹیٹس کو تبدیل کرنے کے لئے ہر غیرقانونی اور یک طرفہ اقدام کی ہمیں بھرپور مذمت اور مخالفت کرنا ہوگی۔جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پچھترویں اجلاس کے موقع پر سارک وزارتی کونسل کے غیررسمی ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ سارک کے بانی رکن کے طور پر پاکستان ہمیشہ سے اس تنظیم کو بے حد اہمیت دیتا آیا ہے اور سارک منشور کے مقاصد اور اصولوں کے ساتھ پختہ وابستگی پر کاربند ہے۔ پاکستان اس اہم تنظیم کی کامیابی کے لئے اپنا فعال کردار جاری رکھے گا۔ پاکستان ”سمارٹ لاک ڈائون”، ٹیسٹ، ٹریسنگ اور کورنٹین کی جامع حکمت عملی کے ذریعے کورونا کی روک تھام میں کامیاب رہا ہے۔ عوام کی جان اوران کا روزگار بچانے کی ہماری متوازن کوششیں کورونا کے اثرات کم کرنے میں مددگار ثابت ہوئیں۔ وزیراعظم کے آٹھ ارب ڈالر کے ریلیف پیکج کے ذریعے ہم نے معاشرے کے کمزور ترین طبقات کوریاست کی طرف سے مدد فراہم کی۔ وزیراعظم نے دس لاکھ رضاکار نوجوانوں کی ٹاسک فورس تشکیل دی۔ لاک ڈاون اور کاروباری سرگرمیاں ماند ہونے کی وجہ سے بے روزگار افراد کو دس ارب درختوں کی شجرکاری کے منصوبوں میں نوکریاں دی جاری ہیں۔اگرچہ پاکستان نے اپنی سرحدی حدود میں کورونا وبا پر کافی حد تک قابو پالیا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ کورونا کے پھیلاو پر قابو پانے کے لئے علاقائی سطح کی سوچ اور اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ جنوبی ایشیاء کے عوام کی زندگیوں اور روزگار کا تحفظ ہو سکے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں درپیش مشترکہ مسائل میں کورونا کی عالمی وبا، تحفظ خوراک، ٹڈی دل کا حملہ اور ماحولیاتی تغیر شامل ہیں جس سے نبردآزما ہونے کے لئے علاقائی سطح پر مشترکہ طرز عمل اور سوچ کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سارک کو ان مسائل پر ازسرنوغور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ادارہ جاتی سطح پر ایسی بہترین تیاری ہو کہ مستقبل میں اس نوع کے مسائل کے درپیش آنے پر ان سے موثر انداز سے نمٹنا ممکن ہوسکے۔ سارک کا ادارہ جنوبی ایشیاء کے عوام کے لئے امید کا استعارہ ہے، تاہم اس ادارے اور ان کی ذیلی باڈیز کی نشوونما کے باوجود عوام کی زندگیوں پر اس کے اثرات ہماری اجتماعی توقعات کے مطابق نہیں آ سکے۔ہمیں عالمی وعلاقائی اور دیگر اقوام کے ساتھ اور بھی زیادہ تعاون استوار کرنے کے ضمن میں مزید توجہ پر مبنی، نتیجہ خیز کوششیں درکار ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس ضمن میں پاکستان ہمیشہ اس تجویز کا حامی رہا ہے کہ وہ مبصر ممالک،جو سارک ممالک کے ساتھ فعال انداز سے روابط استوار کئے ہوئے ہیں اور جو خطے کی ترقی خاص طورپر کورونا وبا کے بعد معاشی بحالی کے تناظر میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، ان کا درجہ ڈائیلاگ پارٹنر کے طور پر بڑھا دیا جائے ۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے سارک کاخطہ دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم کے طور پر دکھائی دیتا ہے۔ترقی، معاشی شرح نمو، غربت کا خاتمہ اور عوام کی سماجی بہتری کے حصول کے لئے تنازعات کا پرامن حل شرط اول ہے۔اس تناظر میں ہم، اقوام متحدہ کے منشور اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر ایماندارانہ عمل درآمد کے لئے پوری قوت سے زور دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے متنازعہ خطوں کے سٹیٹس کو تبدیل کرنے کے لئے ہر غیرقانونی اور یک طرفہ اقدام کی ہمیں بھرپور مذمت اور مخالفت کرنا ہوگی۔ایسے یک طرفہ اقدامات امن وآشتی اور تعاون کا علاقائی ماحول پیدا کرنے کے ہمارے اجتماعی مقصد کے لئے زہرقاتل ہیں، جن کی ہمیں بھرپور مزاحمت کرنا ہوگی۔انسانوں کے بنیادی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا تحفظ یقینی بنانا ہمارا فرض ہے۔ میں کونسل کے ارکان پر زور دوں گا کہ دیرینہ تنازعات سے متاثرہ عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی منظم انداز میں خلاف ورزیوں کا احساس و ادراک کیاجائے اورلوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے۔سارک منشور کی روح اور اصولوں کے مطابق تنظیم اور اس کی باڈیز کی مضبوطی کے لئے رکن ممالک کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں جنوبی ایشیاء یونیورسٹی خصوصی توجہ کی متقاضی ہے جس میں کرپشن اور بدانتظامی کی خبریں عالمی میڈیا کی زینت بن چکی ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ علاقایت کی روح اور سارک کے پلیٹ فارم کے ساتھ پاکستان کی وابستگی کے تحت میں پاکستان کی طرف سے یہ پیشکش کرنا چاہتا ہوں کہ ہم انیسویں سارک سربراہ کانفرنس کے اسلام آباد میں انعقاد کی میزبانی کے لئے تیار ہیں۔ مجھے امید ہے کہ پیدا کردہ مصنوعی رکاوٹیں دورکی جائیں گی اور علاقائی تعاون کے موثر ذریعے کے طورپر سارک کو کام کرنے کے قابل بنایا جائے گا۔