اسلام آباد۔29مارچ (اے پی پی):وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان کی تمام بار کونسلز نے موجودہ قانون سازی کو بھرپور انداز میں سراہتے ہوئے اس ایوان کو خراج تحسین پیش کیا ہے، 2019ء کے بعد سپریم کورٹ کا فل کورٹ نہیں بنا، آرٹیکل 184 شق 3 کے تحت آئینی معاملات پر توقع تھی کہ فل کورٹ یا لارجز بنچ بنا کر اس پر فیصلہ جاری کیا جائے گا تاہم گذشتہ کچھ عرصہ سے تین معزز ججز پر مشتمل بنچ بنا کر ہی فیصلے دیئے جا رہے ہیں، اب سپریم کورٹ کے اندر سے یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں تو اس پارلیمان نے مجبوراً یہ قانون سازی کی ہے جو آنے والی نسلوں کیلئے ہے۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ مولانا عبدالاکبر چترالی نے آئینی ترمیم کے حوالہ سے بات کی، آئین کا آرٹیکل 191 اس ایوان کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ قانون سازی کر سکتا ہے، سپریم کورٹ نے بھی آئین و قانون کے تابع اپنے رولز بنائے ہیں اور اس کے دیباچہ پر لکھے ہیں کہ یہ رولز آئین و قانون کے تابع ہیں، پاکستان کی 6 بار کونسلز وکلاء تنظیموں کی نمائندگی کرتی ہیں، ان میں پاکستان بار کونسل، چاروں صوبوں اور اسلام آباد کی بار کونسلز شامل ہیں، 6 بار کونسلز نے کل سے اس قانون کو ایوان میں لانے پر اس ایوان اور قانون کو سراہا ہے، ضابطہ کار اور آئینی شقوں میں کہیں نہیں لکھا کہ قانون سازی کس رفتار سے ہو گی،
قانون سازی کے لوازمات پورے ہونے چاہئیں، سوا سال پہلے مشترکہ اجلاس میں سابق حکومت نے دو گھنٹے 10 منٹ میں 47 قوانین کی منظوری کا کھلواڑ کیا، وہ تاریخ کا حصہ ہے، ہم دو دن سے اس قانون پر بحث کر رہے ہیںِ، ہم قائمہ کمیٹی کے شکرگزار ہیں جس میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین شامل ہیں، کمیٹی کے چیئرمین محمود بشیر ورک ایک سنجیدہ اور تجربہ کار وکیل ہیں، دو گھنٹے کی بحث کے بعد تین ترامیم کے ساتھ رپورٹ پیش کی گئی ہے جس کی میں نے تائید کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے درست کہا کہ یہ قانون سازی بہت پہلے ہو جانی چاہئے تھی تاہم ہر کام کا ایک وقت متعین ہوتا ہے، حکومت نے اس وقت تک برداشت کا مظاہرہ کیا، یہاں تک کہ عدالت کے اندر سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں، وکلاء تنظیموں نے آج سے کئی سال پہلے یہ مطالبہ رکھا تھا کہ سپریم کورٹ فل کورٹ کرکے اپنے رولز میں ترمیم لائے، اگر یہ نظرثانی ہوئی ہوتی تو یہ قانون لانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، آخری فل کورٹ 2019ء میں ہوئی جس میں یہ ایجنڈا تھا اور اس پر ڈسکشن بھی ہوئی ،اس کے بعد سپریم کورٹ میں فل کورٹ نہیں ہوئی، گذشتہ ایک سال میں بنچوں کی تشکیل کے حوالہ سے دیکھا کہ آرٹیکل 184 شق 3 کے حوالہ سے آئینی پٹیشنز گئیں تو قوم کو یہ امید تھی کہ فیصلہ فل کورٹ یا لارجز بنچ میں کیا جائے گا تاہم یہ رویوں کا مسئلہ ہے کہ ایسی کیا مجبوری ہے کہ ہر دفعہ صرف تین جج کا بنچ بنا کر فیصلے جاری کئے گئے
، اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج اسی ادارے میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ چار تین سے ہو چکا ہے یا تین دو سے ہوا ہے، ایسے وقت میں پارلیمان کو اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے وہ قانون سازی کرنی چاہئے جو اس ملک کے 22 کروڑ عوام کے فائدے میں ہے جس کیلئے اس کیلئے غیور وکلاء گذشتہ 10 سال سے آواز بلند کر رہے ہیں جس سے آنے والی نسلوں کا بھلا ہو گا، اپیل کا حق ملنے سے اور یکساں طریقہ سے بنچ بننے سے ون مین شو کا اختتام ہو گا اور اجتماعی سوچ مضبوط ہو گی، ادارے شخصیات سے نہیں بلکہ اپنے کام، شفافیت اور آزادانہ سوچ سے مضبوط ہوتے ہیں، یہی اس قانون کی روح ہے۔