اسلام آباد۔9اپریل (اے پی پی):وزیر مملکت برائے ریلوے بلال اظہر کیانی نے خواتین کے وراثتی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے معاشرے کے تمام طبقات میں آگاہی پیدا کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے، جن میں علمائے کرام، کمیونٹی لیڈرز، انتظامیہ اور عدلیہ شامل ہیں۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں کالنگ اٹینشن نوٹس پربات کرتے ہوئے انہوں نے سورۃ النساء کی قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی تعلیمات اور پاکستان کا آئین، خصوصاً آرٹیکل 25 جو قانون کی نظر میں برابری کی ضمانت دیتا ہے، خواتین کے وراثتی حقوق کو واضح طور پر تحفظ فراہم کرتا ہے۔
بلال اظہر کیانی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ آئینی اور قانونی تحفظات کے باوجود خواتین کو وراثت میں ان کے جائز حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرتی اور نظامی رکاوٹیں ان قوانین کے موثر نفاذ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں جو خواتین کے جائیداد کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔انہوں نے 1961 کے مسلم فیملی لاز آرڈیننس اور کریمنل لا (تھرڈ امینڈمنٹ) ایکٹ، جسے اینٹی ویمن پریکٹسز ایکٹ بھی کہا جاتا ہے، کا حوالہ دیا جو خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے کو قابل سزا جرم قرار دیتا ہے۔
اس میں پانچ سے دس سال تک کی قید کی سزا مقرر ہے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ ان قوانین کے باوجود مسئلہ ابھی بھی حل طلب ہے۔انہوں نے کہا کہ قوانین اور نظام موجود ہیں، لیکن بدقسمتی سے مسئلہ معاشرتی رویوں اور نفاذ میں تاخیر کے باعث برقرار ہے۔بلال اظہر کیانی نے خواتین کے جائیداد کے حقوق کے نفاذ کے ایک اہم قانون، "انفورسمنٹ آف ویمنز پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2020” کا بھی ذکر کیا جس کے تحت متاثرہ خواتین نہ صرف فیملی کورٹس بلکہ فیڈرل محتسب سیکرٹریٹ برائے انسداد ہراسانی اور متعلقہ سیکرٹریٹس سے بھی رجوع کر سکتی ہیں۔
یہ ادارے انکوائری کر کے ضلعی انتظامیہ کو عمل درآمد کے احکامات جاری کر سکتے ہیں۔اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب سے یہ معاملہ وفاقی سیکرٹریٹس کے سپرد کیا گیا، گزشتہ پانچ سالوں میں 745 وراثت سے متعلق کیسز دائر ہوئے، جن میں سے بیشتر حل ہو چکے ہیں جبکہ 41 کیسز تاحال زیر سماعت ہیں۔ صوبائی سطح پر پنجاب میں 2021 سے اب تک 5,000 سے زائد شکایات موصول ہوئیں جبکہ خیبرپختونخوا میں 1,072 کیسز درج کیے گئے۔ سندھ میں اپنا الگ نظام موجود ہے اور بلوچستان خواتین کے جائیداد حقوق سے متعلق قانون سازی پر غور کر رہا ہے۔
انہوں نے وزارت انسانی حقوق کی 1099 ہیلپ لائن کا بھی ذکر کیا جس پر گزشتہ پانچ سالوں میں 1,500 سے زائد کالز موصول ہوئیں، جن میں متاثرہ خواتین کو قانونی مشورے اور مفت قانونی معاونت فراہم کی گئی۔اراکین اسمبلی کی تجاویز کا جواب دیتے ہوئے بلال اظہر کیانی نے موجودہ قوانین کے بہتر نفاذ کی ضرورت سے اتفاق کیا اور وراثتی مقدمات دائر کرنے کے لیے وقت کی حد مقرر کرنے کی تجویز پر بھی نظرثانی کی بات کی۔
انہوں نے عدلیہ کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ طویل التواء اور سٹے آرڈرز انصاف میں تاخیر کا باعث بنتے ہیں۔بلال اظہر کیانی نے تمام سٹیک ہولڈرز قانون سازوں، عدلیہ، انتظامیہ اور سول سوسائٹی پر زور دیا کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہاکہ وراثت صرف خواتین کے مسائل میں سے ایک ہے، ہمیں آگاہی مہمات جاری رکھنی ہوں گی اور خواتین کو فیڈرل محتسب اور 1099 ہیلپ لائن جیسے فورمز سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دینا ہو گی۔