اسلام آباد ۔ 29 مئی (اے پی پی) وزیر مملکت برائے سیفران شہریار آفریدی نے کہا ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے افغانیوں اور بنگالیوں کو قومی شناختی کارڈ کے اجراءکا فیصلہ اتحادیوں سے مشاورت اور پارلیمنٹ میں اتفاق رائے کے بعد کیا جائے گا، 2019ءمیں افغان مہاجرین کی میزبانی کے 40 سال مکمل ہو رہے ہیں، یہ دن دنیا بھر میں منایا جائے گا، سب سے بڑی تقریب پاکستان میں ہو گی جس میں جنیوا سے بھی مندوبین آئیں گے، افغان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کی اکثریت ہمارے کیمپوں میں پلی بڑھی، غیر رجسٹرڈ افغانیوں کی رضا کارانہ وطن واپسی کے لئے عالمی برادری کردار ادا کرے، یہ افغان شہری ہیں، افغانستان کی حکومت اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ بدھ کو یہاں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کیلئے جس قسم کے اقدامات پاکستان نے کئے ہیں دنیا میں کسی ملک نے نہیں کئے۔ جہاں دنیا آج مہاجرین مخالف پالیسیاں بنا رہی ہیں اور الیکشن بھی تارکین وطن کو ممالک سے نکالنے کے وعدوں پر لڑے جارہے ہیں ان حالات میںپاکستان افغان مہاجرین کو حقوق دیئے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے 14 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو بنک اکاوئنٹس کھولنے کی اجازت دی ہے جس سے انہیں تجارت، روزگار اور ترسیل زر کی سہولتیں حاصل ہونگی جبکہ انہیں ڈرائیونگ لائسنس دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سال 2019 کو افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کے چالیس سال پورے ہونے کے طور پر منارہا ہے۔ اس سال ہم افغان مہاجرین کا ایک بڑا کنونشن منعقد کرنے جارہے ہیں جس کے مہمان خصوصی وزیر اعظم پاکستان عمران خان ہونگے جبکہ سال بھر مختلف ایونٹس کئے جائیں گے تاکہ افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کے حوالے سے اہل پاکستان کی فراخدلی اور قربانیوں کی کہانی دنیا کو سنائی جاسکے۔ شہریار خان آفریدی نے کہا کہ مہمان نوازی اور قربانی کے چالیس سالوں میں مہاجرین کے حوالے سے کوئی ایک واقعہ بھی سامنے نہیں آیا جس میں مہاجرین اور پاکستانی بھائیوں میں لڑائی جھگڑے کی کیفیت پیدا ہوئی ہو حالانکہ دونوں ممالک کے عوام مختلف تمدن اور لائف سٹائل کے حامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی حالیہ کابینہ کے آدھے سے زائد وزراءاور سفراءپاکستان میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور یہیں انکی تعلیم و تربیت ہوئی۔ اسی طرح سے افغانستان کی پوری کرکٹ ٹیم پاکستان میں پلی بڑھی اور یہیں انہوں نے کرکٹ کھیلنا سیکھی اور یہیں سے نام کمایا۔ یہ امر پاکستان کیلئے اقوام عالم میں باعث افتخار ہے۔ وزیر سیفران شہریار آفریدی نے کہا کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے علاقوں میں تقریباً 3500 ترقیاتی پراجیکٹس مکمل کئے گئے ہیں جس میں صحت، تعلیم شامل ہیں۔ پاکستان نے اربوں ڈالرز افغان مہاجرین کی مہمان نوازی پر خرچ کئے جبکہ دنیا نے بہت کم امداد پاکستان کو دی۔ تاہم یہ امر دنیا سے مخفی رہا۔ اب ہم ایک پالیسی کے تحت اقوام عالم کو آگاہ کرینگے کہ کس طرح سے پاکستانیوں نے افغان مہاجرین کیلئے ریاست مدینہ کی طرز پر ایثار اور قربانیوں کی داستان رقم کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کیلئے تعلیم کی سہولتیں دینے کیلئے خصوصی اقدامات کئے ہیںجس میں ہر سال ہزاروں سکالرشپ دیئے جاتے ہیں۔ ان میں ہائیر ایجوکیشن میں ایم بی بی ایس، انجینئرنگ، بی فارمیسی اور دیگر سکالرشپ شامل ہیں۔ پاکستان کے کالجز میں 18 ریزرو سیٹس مہاجرین کیلئے مختص ہیں۔ ایچ ای سی کی جانب سے افغان مہاجرین کو ہر سال3000 سکالرشپ علامہ اقبال گرایجویٹ پروگرام کے تحت دی جارہی ہیں۔ 172 ایجوکیشن سکیمز RAHA پروگرام کے تحت ہیں۔ ہم نے تجویز کیا ہے کہ پانچ ارب روپے کی لاگت سے 2000 سکالرشپس پاکستان افغانستان دوستی سکالرشپ پروگرام کے تحت دی جائیں ۔ اسی طرح صحت کی سہولیات کیلئے تمام ہسپتالوں میں مہاجرین کیلئے خصوصی سہولیات دی جاتی ہےں۔ انہوں نے کہا کہ اے سی سی کارڈ ہولڈر اورافغان مہاجرین کی رہنمائی کیلئے میڈیا ایڈوائزری اور گائیڈینس سیل قائم کیا جا رہا ہے جس کے تحت افغان کمشنریٹ فوکل پرسنز کا تقرر کریگا جو افغان مہاجرین کو افغانستان میں سیاسی اور انتظامی امور پر بریفنگ دیا کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی پالیسیوں پر مہاجرین کی رہنمائی کیلئے سہولت مرکز قائم کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کو مرکزی دھارے میں لانے کیلئے جتنے اقدامات موجودہ حکومت نے کئے ماضی میں انکی مثال ملنا بھی مشکل ہے۔ تحریک انصاف کی کاوشوں سے قومی اسمبلی نے فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی قانون سازی کی جس کو عملی جامہ تحریک انصاف کی حکومت نے پہنچایا۔ اس حوالے سے حکومت نے فاٹا کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کیلئے دس سالہ پروگرام بنایا ہے تاکہ ماضی میں نظر انداز کئے گئے علاقے کو ملک کے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں دس سالہ ترقیاتی پروگرام بنایا گیا ہے جس کے تحت وفاق اور صوبے قابل تقسیم محاصل میں سے ہر سال قبائلی علاقوں کے سالانہ بجٹ کے علاوہ 102 ارب روپیہ فاٹا کی ترقی کیلئے وقف کرینگے چونکہ ابھی صوبوں کے مابین ترقیاتی فنڈز کا مسئلہ حل طلب تھا تو وفاقی حکومت نے این ایف سی ایوارڈ کا انتظار کئے بغیر ہی 95 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزارت سیفران اس سلسلے میں ابھی تک 70 ارب روپے کے نارمل بجٹ کے علاوہ 42 ارب روپے کی خصوصی گرانٹ جاری کرچکی ہے۔ شہریار آفریدی نے کہا کہ اس سلسلے میں آئندہ بجٹ میں مختص کئے جانیوالی رقم میں سے 26 ارب روپے فوری طور پر خیبر پختونخواہ حکومت کو ریلیز کردئیے ہیںجبکہ 1.8 ارب روپے مزید ترقیاتی اخراجات کے طور پر ادا کئے جائیں گے۔ چونکہ قبائلی علاقوں میں ایجنسی ڈویلپمنٹ راہداری اور پرمٹ سسٹم ختم روکا گیا ہے اس لئے وفاقی حکومت مزید 1.65 ارب روپے سالانہ قبائلی علاقوں کی ترقی کیلئے جاری کرچکی ہے۔ وفاق نے بجٹ میں 1.1 ارب روپے مزید منظور کئے ہیں جس سے قبائلی علاقوں کے عوام کو وزیر اعظم ہیلتھ کارڈز جاری کئے جائیں گے۔ وفاق نے آئندہ مالی سال کیلئے خیبر پختونخواہ حکومت کو مزید 57 ارب روپے جاری کئے ہیں جس سے فاٹا کے علاقوں میں ترقیاتی پروگرام کو آگے بڑھایا جائیگا۔