وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے حجم کے تعین کے لئے ٹاسک فورس تشکیل دی جائے گی،نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ

151
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا بزرگ سیاستدان اور سابق وفاقی وزیر سرتاج عزیز کے انتقال پر گہرے افسوس اور رنج کا اظہار
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا بزرگ سیاستدان اور سابق وفاقی وزیر سرتاج عزیز کے انتقال پر گہرے افسوس اور رنج کا اظہار

اسلام آباد۔10ستمبر (اے پی پی):نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ نگران وزیر خزانہ کی سربراہی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے حجم کے تعین کے لئے ٹاسک فورس تشکیل دی جائے گی، یہ ٹاسک فورس پنشن فنڈز کے بہتر انتظام کے ساتھ ساتھ حکومتی اخراجات میں کمی اور ریونیو میں اضافہ کے لئے آپشنز پر غور کرے گی،عام انتخابات سینٹ انتخابات سے قبل ہوجانے چاہییں۔اتوار کو نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اس بات پر قائل ہیں کہ ایک قابل عمل ریاست بنانے اور معاشی کمزوریوں کی وجہ سے وجود کو لاحق خطرات کو کم کرنے کے لئے اخراجات کو معقول بنانے اور آمدنی میں اضافہ ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) مناسب گورننس کے حصول اور ماضی کی ناقص حکمرانی کی وجوہات کو دور کرنے میں معاونت کے لیے کوشاں ہے۔

سول ادارے ماضی میں اپنے کام میں سستی کا شکار تھے لیکن اب فوج کی قیادت نے اپنی تنظیمی طاقت سے سول سروس کے اعتماد کی سطح میں اضافہ کیا ہے جس سے پالیسوں پر عملدرآمد اور اہداف کے حصول کے لئے نئی توانائی پیداہوئی ہے۔نگران وزیر اعظم نے کہا کہ حکومتی اقدامات سے جلد بہتری آنا شروع ہوجائے گی۔انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کے حوالے سے سعودی ولی عہد اور آرمی چیف کے درمیان مثبت بات چیت ہوئی،سعودی ولی عہد کا دورہ پلان میں ہے،

اس دورے کا مقصد ملک میں معاشی مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے،پاکستانی آئل کمپنیوں کا کنسورشیئم اور سعودی آئل کمپنی آرامکو کے درمیان پاکستان میں آئل ریفائنری کے قیام کے لئے تجارتی بات چیت جاری ہے ۔ انہوں نے کہاکہ متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی ممالک سرمایہ کاری کے لئے معدنیات کے شعبہ میں دلچسپی رکھتے ہیں،بلوچستان سمیت پاکستان کے معدنیات کے شعبہ میں وسیع مواقع موجود ہیں۔ماضی میں بلوچستان میں زراعت اور صنعت میں کمی کی بنیادی وجوہات سمگلنگ کو نظر انداز کرنا تھا ، اس کی وجہ سے درآمدی پالیسیاں اور اقتصادی مینجمنٹ متاثر ہوئی ، موجودہ عسکری قیادت اور نگراں حکومت نے اس حوالے سے ایک واضح موقف اپنایا ہے کہ ایران اور افغانستان کی سرحدوں سے اشیاء اور افراد کی نقل و حرکت کو ریگولیٹ کیا جائے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ سرد جنگ کے بعد کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کے وسیع تر مفاد میں علاقائی اور عالمی تناظر میں تزویراتی صورتحال کو مدنظر رکھے ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے تحت معیشت کی بحالی کے لئے اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں،ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم سے فی ہیکٹر پانی کا مصرف ، ٹیکنالوجی ٹرانسفر ، معیاری بیج اور ملازمت کے مواقعوں سمیت زرعی شعبہ میں اہم اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس حوالے سے اطلاعات کا خلاء ہے جسے پر کرنے کے لئے حکومت ایک منصوبہ تشکیل دے رہی ہے تاکہ عوام کو ٹیکس کلچر ، اقتصادی اقدامات اور سٹریٹجک ایشوز سے متعلق آگاہی دی جاسکے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی آئی اے اور جن اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا اس کے اثرات جنوری کے آخر تک نظر آئیں گے،حکومت سرحدی علاقوں میں سمگلنگ کی روک تھام کے لئے گہری نظر رکھے ہوئے ہے،بدقسمتی سے اس سے پہلے سمگلنگ والے مسئلہ کی حساسیت کو سمجھا نہیں گیا۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پنشن فنڈز کے مسائل بھی دیکھ رہے ہیں اور اس پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ایجنڈا مقبول فیصلوں کی بجائے درست فیصلے کرنا ہے،معاشی استحکام سے دیگر معاملات میں بہتری آئے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد نئے صدر کے انتخاب تک موجودہ صدر عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں۔قانون وآئین کے تحت الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ عام انتخابات کی تاریخ دے۔مارچ سے پہلے الیکشن ہونے چاہییں تاکہ مارچ میں ایوان بالا کے نئے ممبران کا انتخاب بروقت ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی ومعاشی استحکام انصاف سے آتا ہے،ہمیں دیکھنا ہوگا کہ سوسائٹی اور ریاست میں کن جمہوری رویوں کی اجازت ہونی چاہییے۔انہوں نے کہا کہ ہم اس جگہ پر آگئے ہیں کہ ہم فیصلہ کریں کہ اس معاشرے نے کس طرح آگے بڑھنا ہے،معاشرے میں مثبت رویوں کے فروغ کے لئے فیصلے کرنا ہوں گے۔

اداروں کے بہتر کام کرنے سے ملک ترقی کرتے ہیں۔ماضی کی غلطیوں کی بنیاد پر اپنے لئے رعایتیں مانگنے کا عمل درست نہیں ہے۔کوئی بھی ملک افراتفری،جلائو گھیرائو اور انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا،معاشرے میں مثبت رویوں کے فروغ کے لئے فیصلے کرنا ہوں گے،ماضی قریب کے پرتشدد واقعات کو عوام نے مسترد کیا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی جماعت کی ہار جیت میرا مسئلہ نہیں یہ لوگوں کا مینڈیٹ ہے وہ کس کو ووٹ دیتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان اپنا نکتہ نظر پیش کرے گا، اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنا نکتہ نظر پیش کرنا چاہیے۔