اسلام آباد۔8اپریل (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیقات سید فخر امام کی زیرصدارت غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے حکمت عملی اور اقدامات کی نگرانی کے لئے قائم اعلی اختیاراتی وفاقی زرعی کمیٹی (ایف سی اے) کا اعلی سطحی اجلاس جمعرات کو یہاں منعقد ہوا۔ اجلاس میں وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے اعلی حکام کے علاوہ صوبائی محکمہ زراعت، سٹیٹ بینک آف پاکستان، زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ ، نیشنل فرٹیلائزر سنٹر ، پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ، انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) اور منصوبہ بندی کمیشن کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران رواں سال 2020-2021ءکی ربیع فصل کے اہداف کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ وفاقی زرعی کمیٹی کی جانب سے شرکاءکو بتایا گیا کہ رواں برس مجموعی طورپر 9.91 ملین ہیکٹرز رقبے پر گندم کاشت کی گئی اور پیداوار کا تخمینہ 26.04 ملین ٹن ہے جوکہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 1.7فیصد زائد ہے۔ شرکاءکو آگاہ کیا گیا کہ رواں سیزن میں آلو کی فصل 226.1 ہزار ہیکٹر رقبے پرکاشت کی گئی اور پیداواری تخمینہ 5724.7 ہزار ٹن رکھا گیا ہے جس میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 829.7 فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ چنا , دالیں, پیاز اور ٹماٹر کی پیداوار سے متعلق امور بھی زیرغور آئے۔ اجلاس میں خریف کی فصلوں کے پیداواری اہداف کا بھی جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کی جانب سے شرکاءکو بتایا گیا کہ کپاس کی فصل 2.33 ملین ہیکٹرز رقبے پر کاشت ہو گئی اور اس کا پیداواری ہدف 10.05 ملین گانٹھیں مقرر کیا گیا ہے جبکہ چاول کی فصل 3.07 ملین ہیکٹر پر کاشت کئے جانے کا امکان ہے اور اس کا پیداواری ہدف 8.2 ملین ٹن مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح مرچ, مکئی, دال ماش اور دال مونگ کے لئے بھی پیداواری اہداف طے کئے گئے ۔ کمیٹی نے آئندہ سیزن کے لئے گنے کی کاشت 1.18 ملین ہیکٹرز رقبے پر کاشت کرنے اور پیداواری ہدف 74.84 ملین ٹن مقرر کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ خریف کی فصلوں کے لئے زرعی وسائل کی دستیابی کے حوالے سے شرکاءکو بتایا گیا کہ مختص اہداف میں 16فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ شرکاءکو بتایا گیا کہ خریف سیزن کے دوران پانی کی دستیابی 67.60 ملین ایکڑ فٹ تک رہنے کا امکان ہے جو گزشتہ برس 65.233 ملین ایکڑ فٹ تھی, اس وقت تمام صوبوں کو پانی کی تسلی بخش سپلائی جاری ہے۔ محکمہ موسمیات کے حکام نے شرکاءکو آگاہ کیا کہ آب وہوا کی صورتحال کے تناظر میں ملک بھر میں بارشوں کی صورتحال معمول کے مطابق رہنے کا امکان ہے جبکہ درجہ حرارت میں بتدریج اضافے کی وجہ سے شمالی علاقہ جات میں برف پگھلنے سے سندھ کے بالائی علاقوں میں بہائو کی رفتار میں اضافے کا امکان ہے۔ کم بارشوں سے کھڑی فصلوں کے لئے بالخصوص بارش والی پٹی میں پانی کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔اسی طرح ملک کے میدانی اور پہاڑی علاقوں میں گرج چمک اور تیز ہوائوں کے ساتھ بارشوں کا بھی امکان ہے۔ حکام نے مزید بتایا کہ کم بارش اور درجہ حرارت میں موسمی اضافے سے جنوب مغربی بلوچستان اور سندھ کے علاقے تھرپارکر میں خشک سالی کی صورتحال میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ محکمہ موسمیات کے حکام نے سفارش کی کہ پانی کے دستیاب ذخائر کا جائز استعمال یقینی بنایا جائے۔ اجلاس کے شرکاءکو بتایا گیا کہ چاول اور مکئی کے بیج کی دستیابی ضروریات کے مطابق رہے گی۔کورونا وباءکی ہنگامی صورتحال کے باوجود قرض دینے والے بڑے اداروں کی جانب سے زرعی قرضوں کی فراہمی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ رواں مالی سال میں 20 جولائی تا فروری 2021ءکے دوران ن806.4 ارب روپے کے قرضے جاری کئے گئے جو مجموعی سالانہ ہدف کا 53.8فیصد ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران اسی عرصے میں 783.8 ارب روپے کے قرضے جاری کئے گئے۔ اس طرح رواں سال کے قرضوں کی شرح میں 2.9فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مزید برآں گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 565.6 ارب کے مقابلے میں 30.2 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ مجموعی زرعی قرضوں کا حجم 595.8 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے, اس طرح فروری 2021ءتک قرضہ لینے والوں کی تعداد3.5 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ شرکاءکو بتایا گیا کہ اس وقت زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ, اسلامک بینک سمیت مجموعی طورپر 50 بڑے ادارے کسانوں کو زرعی قرضے فراہم کر رہے ہیں۔ وفاقی زرعی کمیٹی نے کھاد پر سبسڈی کی سکیم کے زرعی شعبے پر پڑنے والے مثبت اثرات کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے پیداواری حجم بڑھانے میں اہم کردار کیا۔ شرکاءکو بتایا گیا کہ ربیع سیزن کے دوران یوریا اور ڈی اے پی کھادوں کی فراہمی کی صورتحال تسلی بخش رہی کیونکہ مقامی پیداوار اور دستیاب سٹاک کی وجہ سے یوریا اور ڈی اے پی کھادوں کی دستیابی آسان اور اطمینان بخش رہی۔ تاہم کورونا وباءکے عالمی سطح پر پڑنے والے منفی اثرات کی ڈی اے پی کھاد کی فی بیگ قیمت میں 5400 روپے تک اضافہ دیکھنے میں آیا کیونکہ کورونا کی وجہ سے کئی کھاد ساز کارخانے بند ہو چکے تھے ۔ اجلاس کے آخر میں وفاقی زرعی کمیٹی نے ملک میں غذائی تحفظ کی صورتحال کو اطمینان بخش قرار دیا اور مستقبل میں خوراک پیدا کرنے والی فصلوں پر ٹھوس تحقیق و ترقی کرنے اور زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لئے باہمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔