وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین کی وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس

115
APP62-07 ISLAMABAD: January 07 – Federal Minister for Information and Broadcasting Chaudhry Fawad Hussain addressing press conference. APP photo by Irfan Mahmood

اسلام آباد ۔ 7 جنوری (اے پی پی)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا سیاسی مافیا کی تجاوزات کے خلاف آپریشن کلین اپ کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے، عہدوں کی وجہ سے نہیں بلکہ کردار کی وجہ سے ای سی ایل میں نام ڈالے اور نکالے جاتے ہیں، سپریم کورٹ کے حکم پر بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے گا، وزیراعلیٰ سندھ کا نام گھناﺅنی کرپشن میں آنا بھی ایک بڑی شرمندگی ہے، تحریک انصاف کا مراد علی شاہ کے استعفیٰ کا مطالبہ برقرار ہے، جس طرح اومنی گروپ اور زرداری سسٹم کو مراد علی شاہ نے فائدہ پہنچایا اس کی مثال نہیں ملتی، پی ٹی آئی حکومت نے کسی کے خلاف نیا کیس نہیں بنایا صرف تفتیشی اداروں کو آزادی دی، اس آزادی کے نتیجہ میں کرپشن میں ملوث 90 فیصد سیاستدان جیل میں جا چکے ہیں، کرپٹ لوگوں کو سیاست کرنے کیلئے این آر او یا کرپشن کو قانونی قرار دینا پڑے گا، پاکستان کے 20 کروڑ لوگوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ چوروں کو ہر صورت پکڑیں اور لوٹا ہوا پیسہ واپس لیا جائے۔ وہ پیر کو وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے کہا کہ وزیراعظم نے جو کرپٹ لوگوں کے خلاف آپریشن شروع کیا ہے اس کو لے کر آگے چل رہے ہیں، کرپٹ لوگوں کے خلاف آپریشن کلین اپ کامیابی سے جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آج ایک اہم فیصلہ کیا ہے کہ جعلی اکاو¿نٹس کے حوالہ سے جے آئی ٹی رپورٹ میں کی گئی سفارشات کے مطابق معاملہ نیب کو بھجوا دیا گیا ہے، سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے، سپریم کورٹ کے فیصلوں پر پہلے کی طرح عمل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ شفاف احتساب کےلئے مراد علی شاہ کا استعفیٰ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جعلی بینک اکاو¿نٹس میں مراد علی شاہ پر سنگین الزامات سامنے آئے ہیں، تمام مقدمات 2015ءاور 2016ءمیں شروع ہوئے، یہ کہنا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے مقدمات شروع کئے ہیں، یہ تاثر غلط ہے، چوہدری نثار نے بھی اس حوالہ سے پریس کانفرنس کی جس میں بتایا گیا کہ ایان علی کے دوروں اور بلاول ہاﺅس کے اخراجات ایک ہی قسم کے بے نامی اکاﺅنٹ سے ہو رہے ہیں، یہ معاملہ وہیں رک گیا، دراصل دونوں جماعتوں کے لیڈروں کے درمیان چارٹر آف کرپشن پر سائن کئے ہوئے تھے، دوسری جانب مولانا فضل الرحمن بھی کوشش کر رہے ہیں کہ کرپشن کرنے والے سارے سیاستدان اکٹھے ہو جائیں، انہیں مشورہ ہے کہ وہ اس اتحاد کا نام ”اتحاد برائے کرپشن بحالی“ رکھ لیں، یہ سیاستدان پہلے حکومت کرتے ہیں اور اس کے بعد عوام کا پیسہ اپنی ذاتی جائیدادیں خریدنے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور پھر آخر میں وہ یہ سوچتے ہیں کہ عوام ان کی غیر قانونی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے باہر آئے گی لیکن اب ایسا نہیں ہو گا، عوام بھی سمجھدار ہو چکے ہیں، پی ٹی آئی نے وعدہ کیا تھا کہ سارے چور جیلوں میں ہوں گے اس پر مرحلہ وار عملدرآمد ہو رہا ہے، ابھی تک 90 فیصد کامیابی ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جے آئی ٹی رپورٹ پر فیصلے کے بعد قومی احتساب بیورو پر ذمہ داری بڑھ گئی ہے، سپریم کورٹ نے نیب کو 2 ماہ میں تحقیقات مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے، انشاءاﷲ یہ مقدمات اپنے منطقی انجام تک پہنچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کرنے والے یہ چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف کیسز بند ہو جائیں تو جمہوریت کا تسلسل رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کا مطالبہ ہے کہ پچھلے 10 سالوں میں جس طرح لیڈرشپ نے پیسے بنائے ہیں وہ قومی خزانے میں واپس آنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ یو اے ای کے ولی عہد کا دورہ پاکستان 2 مرحلوں پر مشتمل تھا، شیخ زید بن النہیان پہلے سربراہ تھے جن کا وزیراعظم نے استقبال کیا، یو اے ای کی طرف سے 3 ارب ڈالر کے پیکیج کا اعلان پہلے ہی ہو چکا تھا، متحدہ عرب امارات سے بہت اہم تعلقات ہیں۔ وزیر اطلاعات نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب ہم اپوزیشن میں تھے تو حالات خراب ہونے کا کہا جاتا تھا تو ہمیں تصور بھی نہیں تھا، جب عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا حلف لیا تو ہمیں پتہ چلا کہ حالات بہت ہی خراب ہیں، حکومت نے سب سے پہلے فائر فائٹنگ، ادائیگیوں میں توازن کیلئے کام کیا جس کی بدولت آج صورتحال کافی بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت صنعتی محور قائم کرنا چاہتی ہے اس کیلئے ہاﺅسنگ، موبائل فونز پر ٹیکسز، ایکسپورٹ کی حوصلہ افزائی اور امپورٹ کی حوصلہ شکنی کی پالیسیز مقامی سطح پر روزگار فراہم کرنے کی پالیسی ہے، انشاءاﷲ 2019ءمیں معاشی پالیسیاں اپنا کام دکھانا شروع کر دیں گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک ہفتہ میں چار، چار جعلی خبریں آ رہی ہیں اور کوئی ذمہ داری بھی نہیں لے رہا، پہلے تو سوشل میڈیا پر جعلی خبریں گردش کرتی تھیں اب باقاعدہ صحافتی اداروں میں جعلی خبریں چل رہی ہیں، دراصل میڈیا اداروں میں ایڈیٹرز کونسل ختم ہو چکی ہے، تمام میڈیا اداروں کو چاہئے کہ وہ بریکنگ کے معاملات پر ماہر ایڈیٹرز کی خدمات حاصل کریں، اس بارے میں پاکستان براڈ کاسٹنگ (پی بی اے) کو بھی لکھا ہے کہ تمام تقاضے پورے ہونے چاہئیں، حکومت کم سے کم مداخلت کرنا چاہتی ہے، اگر فیک نیوز کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو حکومت کو اس حوالہ سے قانون سازی کرنا پڑے گی۔