
اسلام آباد ۔ 07 مارچ (اے پی پی) وفاقی کابینہ نے ملک میں حالیہ صورتحال میں قائم اتفاق رائے کوجاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت قومی سلامتی کے معاملات پر جسطرح تمام اداروں کو ساتھ لیکر چل رہی ہے اسی طرح اپوزیشن کو بھی ساتھ لیکر چلیں گے۔ انہوں نے حکومت پنجاب کو ہدایات دی ہیں کہ نوازشریف کو علاج کی بہترین سہولتیں دی جائیں، وہ جس ڈاکٹر یا ہسپتال سے علاج چاہتے ہیں انھیں وہاں منتقل کیا جائے اور میڈیکل بورڈ کی سفارشات پر مکمل عملدرآمد کیا جائے،کہیں بھی یہ شائبہ نہیں ہونا چاہیئے کہ حکومت انتقامی کارروائی کر رہی ہے۔ وفاقی کابینہ نے عاصم سعید کو ایم ڈی پاکستان سافٹ ویئر بورڈ اور سید جاوید کی پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ(پرال) میں تعیناتی کی منظوری دیدی ۔جمعرات کو وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر میڈیا بریفنگ میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری نے بتایا کہ حکومت کی نواز شریف اور آصف علی زرداری سے کوئی لڑائی نہیں ہے ،ان پر کرپشن اور بدعنوانی کے جو کیسز بنائے گئے ہیں وہ ہمارے دور کے نہیں ہیں اور نیب کا ادارہ اور اس میں تقرریاں ہماری حکومت نے نہیں کیں ،مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے الگ الگ یا مل کر نیب کے حکام کی تقرریاں کیں، اب کیسز پختہ ہو رہے ہیں اور گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں، اگر ان لوگوں کو صرف اس لئے چھوڑ دیا جائے کہ یہ پارلیمانی لیڈر ہیں تو پھر کبھی طاقتور کا احتساب نہیں ہوسکے گا۔ وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے ایک سپرٹ کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت پنجاب کو ہدایات دی ہیں کہ نواز شریف کواچھے ہسپتال اور بہترین ڈاکٹر کی سہولیات فراہم کی جائیں، ہمارا کوئی انتقام کا رویہ نہیں اور نہ ہی نواز شریف سے کوئی ذاتی دشمنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے ایئر بلیو ائیر لائن کے لائسنس کے تمام قانونی معاملات مکمل ہونے پر باقاعدہ منظوری دیدی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ اگر اس وقت مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی اور ایئر لائن کا لائسنس پی ٹی آئی کے کسی شخص کا ہوتا تو کبھی بھی اس طرح منظوری نہ ملتی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم بڑے دل کے آدمی ہیں اور ایئر بلیو ایئر لائن کے لائسنس کے معاملے پر وفاقی کابینہ کے تمام اراکین نے بھی وزیراعظم کی طرح فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے موجودہ صورتحال میں جس طرح کا اتفاق رائے پیدا ہوا ہے، اسے جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے ،چھوٹی چھوٹی باتوں پر اتفاق رائے ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کے متعلق حکمت عملی تمام پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان سے مشاورت سے بنائی جائے گی ،پارلیمانی جماعتوں کو مکمل اعتماد میں لیا جائے گا ،اہم اور بڑے فیصلے پارلیمانی پارٹیوں کے راہنماﺅںکی مشاورت سے کریں گے۔ وفاقی کابینہ نے ایئر بلیو لائسنس کی منظوری ، ای سی سی کے فیصلوں کی توثیق سمیت مختلف اداروں کے سربراہان کی تقرری کی منظوری بھی دی ہے ۔وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے زور دیا کہ حکومت ایسے اقدامات اٹھائے جس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ غریب عوام کو ملے ،اسی حوالے سے غربت مٹاﺅ پروگرام بھی جلد شروع کیا جارہا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین نے کہا کہ 2014میں قومی ایکشن پلان تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے بنا اسکی بنیادی شرائط میں یہ بھی شامل تھا کہ پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ جن تنظیموں کی آج بات ہورہی ہے یہ تو عملی طور پر نہیں ہیں، ملک کی معیشت اور حیثیت کو بہتر، ملک کا وقار بڑھانا چاہتے ہیں ،40سال بعد یہ پہلا موقع ہے کہ عالمی میڈیا میں پاکستان کے موقف کو پذیرائی اور مودی کے موقف کا مذاق اڑایا جارہا ہے ، پتہ نہیں کیوں مودی سرکار اپنے ووٹوں کے لئے لاکھوں ،کروڑوں زندگیاں خطرے میں ڈالنے پر تلی ہوئی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وزارت قانون و انصاف انسانی حقوق سے متعلق 7قوانین جلد پارلیمنٹ میں لارہی ہے ۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ علماءکرام اور لوگوں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس وقت پاکستان بین الاقوامی طور کوئی بوجھ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اس ضمن میں مذہبی جماعتوں کے بھرپور تعاون پر حکومت شکر گزار ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کے علاوہ کوئی اور ملک ہوتا جس میںتین مرتبہ وزیراعظم رہنے اور کئی سالوں سے اقتدار میں رہنے والا علاج کے لئے باہر جانے کی بات کرتا تو اس کا اس ملک میں سیاسی کیرئیر ہی ختم ہوجاتا کیونکہ اتنے لمبے اقتدار کے بعد ایسا کوئی ہسپتال نہیں بنا پائے جس میں ان کا اپنا علاج ممکن ہوسکے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2015کے بعد سے قومی ایکشن پلان کے تحت کارروائیاں ہورہی ہیں اور قومی ایکشن پلان کے تحت ہی فاٹا کا کے پی کے میں انضمام ہوا ہے ،دراصل پہلے میڈیا کا فوکس قومی ایکشن پلان پر نہیں تھا اور اب فوکس ہوا ہے تو کچھ چیزیں نظر آرہی ہیں۔