وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین کی نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو

85

اسلام آباد ۔ 10 مارچ (اے پی پی) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لیے سہہ جہتی حکمت عملی بنائی ہے جس کا پہلا مرحلہ ان کالعدم تنظیموں کو ہتھیاروں سے پاک کرنا ہے، کالعدم تنظیموں میں بہت سے افراد خود بھی ان تنظیموں سے الگ ہو کر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی کالعدم تنظیموں کے خلاف حکمت عملی کا ایک بیک گراﺅنڈ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے، سب سے پہلے 2002ءمیں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں کوئی بھی شدت پسند تنظیم کام نہیں کرے گی، 2014ءمیں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) کے سانحے کے بعد ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے ہوا جس میں ہم نے ایک ایکشن پلان وضع کیا، اس میں ہم نے بہت سے اہم کام کیے اور کئی سالوں سے نہ ہونے والا فاٹا کا انضمام بھی اسی ایکشن پلان کے تحت ہوا، اس ایکشن پلان کا آخری حصہ رہ گیا تھا جس میں اقوام متحدہ ان شدت پسند تنظیموں سے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کر چکی تھی اور عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے ہم پابند ہیں کہ ہم ان تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کریں لہٰذا ہم نے ان کالعدم تنظیموں کے خلاف سہہ جہتی حکمت عملی اپنائی ہے، جس میں نمبر ایک معاشی جہت، نمبر دو سیاسی جہت اور نمبر تین انتظامی جہت ہے جس کے مطابق ہم آگے بڑھ رہے ہیں، اس حکمت عملی کے پہلے مرحلے میں ہم ان تنظیموں کی فنڈنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں اور انہیں ہتھیاروں سے پاک کیا جا رہا ہے اور جہاں انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے وہاں انتظامی اقدامات کیے جا رہے ہیں جس کے بعد آگے دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں ان کالعدم تنظیموں کی فندنگ کو روکنے کے ساتھ ساتھ انہیں ہتھیاروں سے بھی پاک کیا جا رہا ہے اور ان میں سے بہت سارے لوگ رضاکارانہ طور پر خود کو اس معاملے سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں اور قومی دھارے میں آنا چاہتے ہیں، ہمارا یہ ماننا ہے کہ ان لوگوں کو دوبارہ سے سنبھلنے اور معاشرے کا بہتر شہری بننے کا موقع دیا جانا چاہیئے جس کے لیے سب سے ضروری یہی ہے کہ ان کی اقتصادی بحالی ہو جس کے لیے سب سے پہلے انہیں ہتھیاروں سے پاک کیا جائے گا اور پھر ان کی اقتصادی بحالی ہو گی اور پھر اس کے بعد کسی بھی پاکستانی شہری کو سیاست میں حصہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتیں مدارس میں اصلاحات لانے کے ساتھ ساتھ دیگر امور میں بھی بری طرح ناکام رہیں لیکن موجودہ حکومت نے اب جو مرحلہ شروع کیا ہے اور جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ ماضی کی نسبت بالکل مختلف ہیں، صرف مدارس میں اصلاحات لانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں پورے تعلیمی نظام کی اصلاحات کی ضرورت ہے اس لیے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی سربراہی میں ایک نیشنل سلیبس کمیٹی بنائی گئی ہے جس کے تحت پورے سلیبس کو ریویو کیا جا رہا ہے اور انشااللہ اس پورے سلیبس میں بھی بڑی اصلاحات نظر آئیں گی۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کے حکومتی تحویل میں لیے جانے والے افراد کو مستقل طور پر تحویل میں رکھنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں اور امید ہے کہ بہت سے لوگ اس سلسلے میں ہمارے ساتھ تعاون بھی کریں گے کیونکہ پورا پاکستان ملکی حالات و واقعات سے پوری طرح واقف ہے اس لیے ان لوگوں کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ حکومت کے لیے ایسے حالات نہیں کہ وہ اس سلسلے میں کوئی نرمی برتے، اس وقت حکومت کے لیے ایف اے ٹی ایف بہت اہم ہے جس کے ساتھ ہم نے کھڑے ہونا ہے اور اگر ہم نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری نہ کیں تو پھر اقتصادی سختیاں مزید بڑھیں گی۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جن مدارس کو حکومت نے انتظامی تحویل میں لیا ہے انہیں اب حکومت ہی چلائے گی جن کے لیے ایک نظام بھی وضع کر دیا گیا ہے اور بجٹ بھی مختص کر دیا گیا ہے، بہت سے مدارس بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور کچھ مدارس ایسے بھی ہیں جن کی رپورٹس اچھی نہیں جن کے خلاف کارروائیاں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس ساری صورتحال پر پہلے بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تمام پارلیمانی رہنماﺅں کو بریفنگ دی تھی اور اب بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس ضمن میں اٹھائے جانے والے حکومتی اقدامات پر اپوزیشن رہنماﺅں سے بات کریں گے اور اس سارے معاملے پر اپوزیشن کو ضرور اعتماد میں لیا جائے گا۔