وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیری مزاری کا ایس ڈی پی آئی کے زیراہتمام بین الاقوامی ویڈیو سیمینار سے خطاب

193

اسلام آباد ۔ 24 جون (اے پی پی) وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیری مزاری نے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے دیرینہ مسائل کے پائیدارحل کےلئے مسلم ا±مہ کا عالمی اتحاد ناگزیر ہو چکا ہے، بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیر میںمسلمانوں کے ساتھ بھارتی سیکورٹی فورسز کے جاری مظالم کے خلاف عرب ممالک کے شہریوں کی جانب سے سوشل میڈیا اور دیگر چینلز پرآنے والے بیانات حوصلہ افزاءہیں، تمام اسلامی ممالک میں کشمیر اور فلسطین کے دیرینہ مسائل کے بارے میں مسلم امہ کی فکری بے چینی کو منظم اور متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کے زیراہتمام اسلام آباد میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی ویڈیو سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صدارت آئی پی ایس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر خالد رحمن نے کی جبکہ پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیری مزاری، برطانیہ کے ہاﺅس آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیر احمد، برطانوی ممبر پارلیمنٹ خالد محمود، ترک وزیراعظم کے مشیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر حمیت ایرسوئی، مصری قومی آئینی کمیٹی کے نائب صدر ڈاکٹر کمال ہیلبوائی، استنبول یونیورسٹی ترکی کے پروفیسرڈاکٹرحلیل طوکار اور قطر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر فرحان مجاہد چک نے اپنے اپنے خطابات میں مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کی انتہاءہو چکی ہے، اس لئے ان دیرینہ مسائل کو حل کرانے کےلئے مسلم ا±مہ کا اتحاد ناگزیر ہو چکا ہے۔ پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیری مزاری نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے عین مطابق اپنے حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے والے کشمیری مردوں، نوجوانوں ، خواتین اور بچوں پر بے پناہ مظالم ڈھا رہی ہیں جبکہ فلسطین میں بھی ایسے ہی بھیانک حالات ہیں، بھارت اوراسرائیل کا یکساں ایجنڈہ عالمی امن کےلئے سنگین خطرہ ہے۔ برطانوی ہاﺅس آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیر احمد نے کہا کہ بھارت اب سیکولر ملک نہیں رہا بلکہ بھارت کا پورا سیاسی نظام متعصب ہندوتوا کے کنٹرول میں آچکا ہے اور بھارت میں اقلیتوں کو مساوی شہری حقوق حاصل نہیں ہیں۔ انہوں نے عرب ممالک کی موجودہ پالیسیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اب عرب ممالک بھارت کے حقیقی انتہائ پسندانہ اورمسلم دشمن چہرے کو پہچان چکے ہیں اور پوری دنیا پربھی آشکارہ ہوگیا ہے کہ اب بھارت میں سیکولر جمہوریت کا وجود باقی نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت عظیم اسلامی ملک پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کےلئے اپنی انٹیلی جنس تنظیم را کے ذریعے انتہائی شرمناک کھیل کھیل رہا ہے جس کا او آئی سی ممالک سمیت اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔ برطانوی ممبر پارلیمنٹ خالد محمود نے کہا کہ بھارت میں مودی سرکار ہندوتواکے انتہائ پسند نظریئے پر چلتے ہوئے جینوا کنونشن کی سنگین ترین خلاف ورزیوں کی مرتکب ہورہی ہے، اس لیے تمام اسلامی ممالک متحد ہوکر بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پرجاری انسانیت سوز مظالم کا معاملہ بین الاقوامی فوجداری عدالت آئی سی سی کے پاس لے جانا چاہیے۔ انہوں نے کشمیری عوام پر بھی زوردیا کہ وہ اپنے معمولی نوعیت کے باہمی اختلافات کو ختم کرکے اپنے اتحاد کی طاقت سے عالمی طاقتوں پر مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کےلئے دباﺅ ڈالیں۔ ترک وزیراعظم کے مشیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر حمیت ایرسوئی نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ ہندوستان، امریکہ اور اسرائیل مشترکہ طور پر مسلم دنیا کیخلاف کام کررہے ہیں اور غیر ملکی قبضہ کے خلاف مسلمانوں کی آزادی کےلئے جدوجہد کو جان بوجھ کر دہشت گردی کا رنگ دیا جا رہا ہے تاکہ وہ مسلم علاقوں پر اپنے ناجائز قبضے اور جبر کا جواز پیش کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر مسلم قوتیں اپنے پلان کے مطابق مسلمانوں میں ذات پات اورمسلک کی تفریق پیدا کرکے مسلمانوں کے بارے میں جنونی انتہاءپسند اور دہشت گردہونے کامنفی تاثر پیدا کرتی ہیں، حالانکہ اسلام امن وسلامتی کا دین ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی سیاست میں بی جے پی کا عروج اس کے منافرت پر مبنی فلسفے کی وجہ سے ہے ، بھارت میںیہ متعصبانہ سلسلہ 1992ءمیں بابری مسجد کے انہدام سے شروع ہوا اور بی جے پی ہندوتواکے انتہاءپسندانہ نعروں کی حمایت کرتے ہوئے اقتدار میں آئی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں 76 فیصد مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز جرائم کا ارتکاب ہوچکا ہے۔ قطر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر فرحان مجاہد چک نے اپنے خطاب میں دنیا بھر کے مسلم سکالرز پر زور دیا کہ وہ اپنے مسائل کو حل کرنے کےلئے جدید طریقے تلاش کریں اور دنیا بھر کے مسلم ممالک میں رائے عامہ کومنظم کرکے اپنے اہداف حاصل کریں۔مصری قومی آئینی کمیٹی کے نائب صدر ڈاکٹر کمال ہیلبوائی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کے پرامن ، ترقی پسند اور اعتدال پسند جذبوں پر کاربند ہونے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے دشمن ممالک مسلمانوں کیخلاف اپنے مظالم اور جرائم کو چھپانے کےلئے پڑوسی مسلم ممالک پر جھوٹی الزام تراشی کرکے اپنی جارحانہ روش کا جواز پیش کرتے ہیں اور بھارت بھی اسی سوچے سمجھے پلا ن کے تحت مسلمانوں کو جان بوجھ کر دہشت گردوں کی حیثیت دلانا چاہتا ہے،اس لئے اسلامی ممالک پر لازم ہے کہ وہ اسلام دشمن قوتوں کیخلاف متحد ہوجائیں۔ استنبول یونیورسٹی ترکی کے پروفیسرڈاکٹرحلیل طوکارنے کہا کہ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کی نظریاتی اساس آر ایس ایس کا دوسرے مذاہب کیخلاف نفرت پر مبنی انتہاءپسندانہ فلسفہ ہے اوربھارت کی موجودہ حکمران جماعت بی جے پی نازی رہنماءہٹلر کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی ویبینار کے سامعین کو یاد دلایا کہ بھارت کے موجودہ وزیراعظم مودی 2002ءمیں گجرات میں ہونیوالے مسلمانوں کے قتل عام کے بھی ذمہ دار ہیں اورایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس 2021ءکے آخر تک ہندوستان سے مسلمانوں اورعیسائیوں سمیت تمام اقلیتوں کا خاتمہ کرنے کے درپے ہیں۔ آئی پی ایس کے ایگزیکٹو صدر خالد رحمان نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ ہندوستان1947ءسے پہلے اپنی موجودہ شکل میں موجود نہیں تھا اور موجودہ بھارت کا 60 فیصد علاقہ صوبوں پر مشتمل تھا جبکہ 40 فیصد علاقہ انگریزوں کے زیر اقتدار ریاستوں پر مشتمل تھا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ انگریزوں نے ہی اس خطے میں تفرقہ پیدا کرکے حکمرانی کرنے کی پالیسی متعارف کرائی جبکہ اس سے قبل پورا ہندوستان صدیوں تک مسلم حکمرانی کے تحت ایک فروغ پذیر معیشت ، مستحکم، شائستہ، متنوع اور متمول معاشرہ تھا جس میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل تھے۔ انگریزوں کی لڑا? اور حکومت کرو کی پالیسی سے قبل پورے ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں نے گڈگورننس کے ذریعے انتہائی تعمیری انداز میں معیشت ، ثقافت اور فن تعمیر کو اجاگر کرنے کےلئے یادگار کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنے اجتماعی مفادات کے حصول میں اپنی ناکامیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی ماضی کی غلطیوں اور دیگر طاقتوں پر انحصار کی پالیسی سے سبق سیکھنا چاہئے۔ دنیا بھر کی اسلامی حکومتوں کو عوامی شعور اجاگر کرنے ، تعلیم کو بہتر بنانے، معلومات کے پھیلاﺅ اور اپنی طاقت کی دنیا بھر میں اثراندازی کےلئے انتہائی جدید خطوط پرموجودہ عصری تقاضوں کے عین مطابق اپنی لابنگ کو بھی مضبوط کرکے مسلم ا±مہ کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرنا چاہئے۔