اسلام آباد۔3جولائی (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال کی زیر صدارت آبادی کے انتظام سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا، جس میں انہوں نے آبادی کے مسئلے کو "قومی ایمرجنسی” قرار دیتے ہوئے فوری اور مربوط قومی حکمت عملی اپنانے پر زور دیا۔وزیر منصوبہ بندی نے کہاکہ آ بادی کی منصوبہ بندی ایک فرد کی زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتی ہے،صحت، تعلیم، روزگار، ہر چیز کا تعلق خاندان کے حجم سے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن چکا ہے، جہاں 80 فیصد آبادی 40 سال سے کم عمر اور 66 فیصد 30 سال سے کم عمر ہے۔ انہوں نے ان اعداد و شمار کو "تشویشناک” قرار دیتے ہوئے وفاق اور صوبوں کے درمیان قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔اجلاس میں وفاقی وزربرائے قومی صحت مصطفیٰ کمال ، وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف ، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ ،سینیٹر روبینہ خالد، سینیٹر شیری رحمان (آن لائن)، بی آئی ایس پی کی چیئرپرسن، اقوام متحدہ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، پاپولیشن کونسل، اور دیگر عالمی اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
وزارت منصوبہ بندی کی ممبر سوشل سیکٹر ڈاکٹر صائمہ بشیر نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی 40 فیصد آبادی نے کبھی سکول نہیں دیکھا، جبکہ صرف 25 فیصد خواتین لیبر فورس کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر سبینہ درانی نے آبادی کے انتظام کے لئے تین سطحی گورننس ماڈل تجویز کیا، جس میں قومی رہنمائی کے ساتھ ساتھ مقامی احتساب بھی شامل ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ موجودہ 2.55 فیصد سالانہ شرح نمو کے تحت پاکستان کی آبادی 2050 تک 38 کروڑ 60 لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگرچہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد آبادی کا موضوع صوبائی معاملہ ہے، تاہم اس کے اثرات قومی سطح پر محسوس کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی حکمت عملی کے بغیر، بکھری ہوئی کوششیں کبھی مؤثر نتائج نہیں دے سکتیں۔
وزیر منصوبہ بندی نے موجودہ این ایف سی ایوارڈ فارمولے کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 82 فیصد مالی وسائل آبادی کی بنیاد پر تقسیم کئے جاتے ہیں، جس سے صوبوں کو آبادی کم کرنے کے لئے کوئی مالی ترغیب نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ اس فارمولے پر نظر ثانی کئے بغیر صوبائی سنجیدگی ممکن نہیں۔انہوں نے پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کو ہدایت کی کہ آبادی کا صوبہ وار تفصیلی ڈیٹا فراہم کیا جائے تاکہ اصل مسائل کی نشان دہی کی جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے مطابق ملک کی آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ 90 ہزار ہو چکی ہے، جو کہ 2017 کے مقابلے میں 3 کروڑ 38 لاکھ کا اضافہ ہے۔اجلاس میں وزارت منصوبہ بندی کی اس تجویز پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا کہ وزیراعظم کی سربراہی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی قومی کمیشن قائم کیا جائے، جس میں چاروں وزرائے اعلیٰ شامل ہوں، تاکہ اس بحران کا مؤثر حل نکالا جا سکے۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ پاکستان میں ہر 50 منٹ میں ایک خاتون زچگی کے دوران اپنے بچے سے محروم ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کمیشن کے قیام کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی پہلی میٹنگ کے بعد آبادی کے بحران کو قومی ایمرجنسی قرار دیا جا سکتا ہے۔اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ سماجی شعبے میں مستقل تبدیلیاں پالیسی کے تسلسل میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے اٹھارہویں ترمیم کے بعد پیدا ہونے والے اختیارات کو آبادی کی منصوبہ بندی میں بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی رہنماؤں کا اثر بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے اور دیہی خواتین کو مارکیٹس، یوٹیلیٹی اسٹورز اور بیسک ہیلتھ یونٹس پر مہمات کے ذریعے آگاہی دینا ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جیسے ٹک ٹاک، کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا جانا چاہیے۔وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے مذہبی قیادت اور مشترکہ مفادات کونسل کو شامل کرنے پر زور دیا، جبکہ سینیٹر روبینہ خالد نے وزارت اطلاعات کی قیادت میں ایک بھرپور آگاہی مہم شروع کرنے اور بی آئی ایس پی کے ذریعے ملک گیر سطح پر عوامی رابطے بڑھانے کی تجویز دی۔
ڈاکٹر زیباسحر نے کہا کہ پچھلے ٹاسک فورسز اختیارات کی کمی کی وجہ سے ناکام رہیں۔ ڈاکٹر سامعہ رضوان (یونیسف) نے بتایا کہ پاکستان میں ہر گھنٹے 30 نوزائیدہ بچے جاں بحق ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو حمل سے پہلے صحت کی خدمات میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، اور مقامی کمیونیٹیز کو اس کا حصہ بنانا ہوگا۔ڈاکٹر لوئے شبانہ (یو این ایف پی اے) نے صحت کے نظام کو مضبوط کرنے اور قلیل و طویل مدتی ترغیبات کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے نمائندے نے این ایف سی ایوارڈ کے تحت موجودہ مالیاتی ڈھانچے کو پرانا اور غیر مؤثر قرار دیا، جو صرف آبادی کے اضافے کو انعام دیتا ہے ۔
خیبرپختونخوا کی سیکرٹری پاپولیشن ویلفیئر، ڈاکٹر انیلا محبوب درانی نے بنگلہ دیش کی کامیاب مثال کا حوالہ دیا، جہاں مذہبی رہنماؤں کو آبادی کنٹرول میں شامل کیا گیا۔منصوبہ بندی کمیشن کی رکن ترقیاتی ابلاغ آمنہ کمال نے زور دیا کہ آبادی کے بارے میں مہمات بناتے ہوئے عوام کو کمتر نہ سمجھا جائے اور خاندانی منصوبہ بندی پر بات کرنے میں شرمندگی محسوس نہ کی جائے۔
شرکا نے وزیراعظم کی سربراہی میں قومی آبادی کمیشن کے قیام پر اتفاق کیا، جو تمام صوبوں کی نمائندگی کے ساتھ آبادی کے مسئلے کے حل کے لیے قومی حکمت عملی طے کرے گا، اہداف مقرر کرے گا، اور احتساب کے نظام کو یقینی بنائے گا۔