اسلام آباد۔9جون (اے پی پی):وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے جمعہ کو قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں وفاقی بجٹ 2023-24پیش کیا جس کا مکمل متن درج ذیل ہے۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
جناب سپیکر!
1۔ میں خدائے بزرگ و برتر کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ مجھے اس معزز ایوان کے سامنے Coalition Government کا دوسرا بجٹ برائے مالی سال 2023-24ء پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔
جناب سپیکر!
2۔ اس سے پہلے کہ میں مالی سال 2023-24ء بجٹ کے اعداد و شمار اس معزز ایوان کے سامنے پیش کروں، میں آپ کی اجازت سے میاں محمد نوازشریف کی بطور وزیراعظم حکومت 2013-17ء اور تحریک انصاف کی نااہل حکومت 2018-22ء کا ایک تقابلی جائزہ آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
آپ کو یاد ہو گا کہ مالی سال 2016-17ء تک وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی قیادت میں پاکستان کی معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد پر پہنچ چکی تھی۔ افراط زر کی شرح 4 فیصد تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگائی میں سالانہ اوسطاً اضافہ صرف 2 فیصد تھا۔
پالیسی ریٹ 5.5 فیصد اور سٹاک ایکسچینج سائوتھ ایشیاء میں نمبر 1 اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔ پاکستان خوشحالی اور معاشی ترقی کی جانب گامزن تھا اور دنیا پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی معترف تھی۔ گلوبل ادارہ Price Waterhouse Coopers (PWC) کی Projection کے مطابق سال 2030ء تک پاکستان G-20 کا رکن بننے یعنی دنیا کی 20 سب سے بڑی معیشتوں میں شامل ہونے جا رہا تھا۔ پاکستانی روپیہ مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کا بلند ترین تاریخی ریکارڈ قائم کر چکے تھے۔
ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے نئے منصوبے مکمل کئے گئے۔ اس سے ملک میں 12 سے 16 گھنٹے کی روزانہ لوڈ شیڈنگ سے نجات حاصل ہوئی اور ملک کی معاشی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ کو دور کیا گیا۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر کے شعبے، ہائی ویز کی تعمیر، Mass Transit Systems، روزگار کی فراہمی کے مواقع اور آسان قرضوں کی فراہمی جیسے عوام دوست منصوبوں کی تکمیل کی گئی تھی۔ یہ ایک خوشحالی، استحکام اور ترقی کا دور تھا۔ یاد رہے کہ مالی سال 2017-18ء میں وفاقی ترقیاتی بجٹ کا ہدف پہلی دفعہ 1001 ارب روپے رکھا گیا تھا جو آج تک دوبارہ نہیں رکھا جا سکا۔
ضرب عضب اور ردالفساد آپریشنز اور افواج پاکستان کی قربانیوں کے مرہون منت ملک بھر میں دہشت گردی کے ناسور پر قابو پا کر اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ پاکستان میں امن و امان اور سیاسی استحکام تھا۔
جناب سپیکر!
ان حالات میں آناً فاناً منتخب جمہوری حکومت کیخلاف سازشوں کے جال بچھا دیئے گئے۔ جس کے نتیجے میں اگست 2018ء میں ایک Selected حکومت وجود میں آئی۔ اس Selected حکومت کی معاشی ناکامیوں پر اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جو ملک 2017ء میں دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن چکا تھا وہ 2022 میں گر کر 47 ویں نمبر پر آ گیا۔
جناب سپیکر!
3۔ آج پاکستان معاشی تاریخ کے مشکل ترین مرحلے سے گزر رہا ہے۔ میں انتہائی وثوق سے کہنا چاہوں گا کہ آج کی خراب معاشی صورتحال کی اصل ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت ہے۔ موجودہ حالات پچھلی حکومت کی معاشی بدانتظامی، بدعنوانی، عناد پسندی اور اقرباء پروری کا شاخسانہ ہیں لہٰذا یہ مناسب ہو گا کہ میں مالی سال 2021-22ء تک کی معاشی صورتحال کا ایک جائزہ اس معزز ایوان کے سامنے رکھوں۔
جناب سپیکر!
4۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی غلط معاشی حکمت عملی کے باعث کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ 17.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے۔ IMF پروگرام کی تکمیل پاکستان کیلئے انتہائی اہم تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس نازک صورتحال میں حالات کو جان بو جھ کر خراب کیا۔ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی کے ذریعے کمی کر دی۔ ایسے اقدامات اٹھائے جو کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔ یہاں تک کہ اس ضمن میں آپ کو یاد ہو گا کہ سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ نے فون کر کے دو صوبائی وزرائے خزانہ پر شدید دبائو ڈالا کہ وہ اپنا قومی فریضہ انجام نہ دیتے ہوئے آئی ایم ایف کے پروگرام کو سبوتاژ کریں۔
یہ اقدامات نئی حکومت کیلئے بارودی سرنگیں بچھانے کے مترادف تھے۔ ان اقدامات نے نہ صرف مالی خسارے میں اضافہ کیا بلکہ حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ پی ٹی آئی نے تمام حالات کی ذمہ داری نئی حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش محض چور مچائے شور کے مترادف تھی۔
ان کو یقین تھا کہ معاشی حالات اتنے خراب ہو جائیں گے کہ کوئی پاکستان کو ڈیفالٹ سے نہیں بچا سکے گا۔ لہٰذا وہ حقائق کو مسخ کر کے ان کی ذمہ داری آنے والی حکومت پر ڈالنا چاہتے تھے۔ یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ طرز عمل تھا۔ کسی محبت وطن، سیاسی جماعت کو اس طرح کا طرز عمل زیب نہیں دیتا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور وزیراعظم شہباز شریف اور اتحادی جماعتوں کے بھرپور تعاون سے ایسے معاشی فیصلے کئے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے ان ملک دشمن لوگوں کے عزائم پورے نہیں ہو پا رہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے نہ صرف پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا بلکہ ان سازشی عناصر کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔
جناب سپیکر!
5۔ تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی حکمت عملی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ان کے دور میں مالی خسارے کا خطرناک حد تک بڑھنا تھا۔ مالی سال 2021-22 کا خسارہ GDP کے 7.9 فیصد کے برابر جبکہ Primary Deficit جی ڈی پی کے 3.1 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔
موجودہ اتحادی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی IMF پروگرام کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کو اس وقت بھی علم تھا کہ پاکستان کو معاشی بحالی کیلئے انتہائی تکلیف دہ اقدامات کرنے پڑیں گے جس کی وجہ سے عوام کو مہنگائی اور غربت میں اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روپے کی قدر میں کمی اور Interest Rate میں تیزی سے اضافے کے نتیجے میں معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ حکومت نے ”سیاست نہیں ریاست بچائو” پالیسی پر عمل کیا۔ اپنی سیاسی ساکھ کی قربانی دے کر معیشت کی بحالی کو ترجیح دی۔
جناب سپیکر!
6۔ جون 2018ء میں پاکستان کا Public Debt تقریباً 25 ٹریلین روپے تھا۔ PTI کی معاشی بدانتظامی اور بلند ترین بجٹ خساروں کی وجہ سے یہ قرض مالی سال 2021-22ء تک 49 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اس طرح پچھلے چار سالہ دور میں اتنا قرض لیا گیا جو 1947ء سے 2018ء تک یعنی 71 سال میں لئے گئے قرض کا 96 فیصد تھا۔ اسی طرح Public Debt and Liabilities اسی عرصہ میں 100 فیصد سے بڑھ کر 30 ٹریلین سے 60 ٹریلین روپے پر پہنچ گیا۔
جون 2018ء میں External Debt and Liabilities، 95 ارب ڈالر تھیں۔ جون 2022ء تک یہ 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھیں۔
قرضوں کے مجموعی حجم میں اس قدر اضافے کی وجہ سے حکومت پاکستان کے Interest Expenditure میں بے پناہ اضافہ ہوا اور نتیجتاً پاکستان کی معیشت Debt Servicing کی وجہ سے بہت زیادہ Vulnerable ہو گئی۔
جناب سپیکر!
7۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو 2013ء میں 503 ارب روپے کا گردشی قرضہ
(Circular Debt) ورثے میں ملا جو مالی سال 2018 تک بڑھ کر 1148 ارب روپے پر پہنچ گیا ہے۔ یعنی 5 سالوں میں گردشی قرضوں میں 645 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ یعنی 129 ارب سالانہ بڑھا جبکہ پی ٹی آئی حکومت کے غیر سنجیدہ رویوں اور بدنظمی کی وجہ سے توانائی کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہوا۔ پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور حکومت میں گردشی قرضوں میں 1319 ارب روپے کا اضافہ کے ساتھ یہ 1148 ارب سے بڑھ کر 2467 ارب روپے پر پہنچ گیا ہے۔ یعنی سالانہ 329 ارب روپے بڑھا۔
جناب اسپیکر!
8۔ بجٹ خسارہ پاکستان کے معاشی مسائل میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ PTI حکومت ٹیکس وصولی کے نظام میں بہتری لانے میں یکسر ناکام رہی جبکہ اخراجات میں بے پناہ اضافہ کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ PTI کے چار سالہ دور میں GDP کے تناسب سے اوسط بجٹ خسارہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پانچ سالہ دور سے تقریباً دو گنا تھا۔
صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کیلئے کفایت شعاری سے کام لیا۔ Austerity Measures لئے گئے، Untargeted Subsidies کو بہت حد تک ختم کیا گیا اور Grants کی مد میں پچھلے سال کے مقابلے میں اخراجات میں کمی کی گئی۔ ان اقدامات کے نتیجے میں بجٹ خسارہ پچھلے مال سالی میں GDP کے 7.9 فیصد سے کم ہو کر رواں مالی سال میں GDP کا 7.0 فیصد ہوگیا ہے۔ اس طرح بجٹ خسارے میں ایک سال میں GDP کے تقریباً 1 فیصد کے برابر کمی لائی گئی جبکہ Primary Deficit کو صرف ایک سال کی مدت میں GDP کے 3.1 فیصد سے کم کر کے 0.5 فیصد پر لایا گیا۔ یعنی 2.6 فیصد کے برابر کمی ہوئی۔
جناب اسپیکر!
9۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج کی معاشی صورتحال اور عام آدمی کیلئے مشکلات PTI حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں، بدعنوانیوں اور ناکامیوں کا نتیجہ ہے، مجھے امید ہے کہ پاکستان کی عوام اس بات سے پوری طرح آگاہ ہو چکے ہیں کہ موجودہ معاشی مشکلات اور مہنگائی کی مکمل ذمہ دار گزشتہ حکومت ہے۔ ماضی کی Selected حکومت نے اپنے سیاسی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے ملک کی معیشت کو شدید نقصان سے دوچار کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی دوراندیش قیادت میں حکومت نے مشکل ترین حالات میں حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی۔ حکومت نے اپنے سیاسی نقصانات کی پرواہ کئے بغیر ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا۔ میری گزارش ہے کہ پاکستان کی عوام یہ پہنچان لے کہ کس نے ملک کو بچانے کی کوشش کی اور کون پاکستان کی تباہی کا باعث بنتا رہا۔
جناب اسپیکر!
10۔ اس ضمن میں 9۔مئی کو رونما ہونے والے المناک شرمناک، ملک دشمن واقعات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ سیاسی جماعت کا لبادہ اوڑھے مسلح دہشت گرد جتھوں نے پاکستان کی سا لمیت، ساکھ اور قومی وقار کو مجروح کرنے کی گھنائونی اور منظم سازش کی۔ پاک افواج کے شہداء کی قربانیوں کو یکسر نظرانداز کیا اور ان کی یادگاروں کی بے حرمتی کا جرم کیا۔ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ دفاعی تنصیبات کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ایسے ملک دشمن عناصر اپنی ناپاک حرکتوں کی وجہ سے خود ہی بے نقاب ہو چکے ہیں۔ یہ گروہ کسی صورت بھی نرمی اور رحم دلی کے حقدار نہیں۔ ایسے تمام عناصر کو پاکستان کے قوانین کے مطابق سخت سے سخت سزائیں دی جانی چاہیں تاکہ آئندہ کسی کو بھی ایسے ناپاک عزائم کے ساتھ ملک دشمن سرگرمیوں میں حصہ لینے کی جرات نہ ہو۔
جناب اسپیکر!
11۔ ملکی معیشت کو پچھلے ایک سال کے دوران کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے سال پاکستان کی عوام خاص طور پر صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے عوام کو سیلاب کی ناگہانی آفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سیلاب کی وجہ سے ملکی املاک اور معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ عوام کی بحالی اور آبادکاری کیلئے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔
مزیدبرآں اقوام متحدہ کے ادارے FAO کے تخمینے کے مطابق سال 2021 کے مقابلے میں سال 2022 کے دوران بین الاقوامی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پاکستان تیل، گندم، دالیں، خوردنی تیل اور کھاد درآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہے جس کی ہمیں زرمبادلہ میں ادائیگی کرنا پڑتی ہے اور یہ مہنگائی میں اضافے کا باعث بنا۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی صورتحال جس میں یوکرین کی جنگ، عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مغربی ممالک میں شرح سود میں اضافہ نے ملک کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔
12۔ پاکستان کی معیشت کا دوسرا بڑا مسئلہ Current Account Deficit (CAD)ہے۔ PTI حکومت کی وجہ سے مالی سال 22۔2021 میں CAD 17.5 ارب ڈالر ہوگیا تھا۔ موجودہ حکومت کے بروقت اقدامات سے CAD میں تقریباً 77 فیصد کمی آئی۔ انشاء اﷲ مالی سال 23۔2022 کے اختتام پر یہ خسارہ کم ہو کے تقریباً 4 ارب ڈالر رہ جائے گا۔ اسی طرح تجارتی خسارہ جوکہ سال 22۔2021 میں 48 ارب ڈالر تھا، مالی سال 23۔2022 میں تقریباً 26 ارب ڈالر متوقع ہے۔ اس طرح ایک سال میں تجارتی خسارے میں تقریباً 22 ارب ڈالر کی کمی لائی گئی ہے۔ CAD اور تجارتی خسارے میں کمی لاتے ہوئے حکومت نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ صرف Luxury Goods اور دیگر غیر ضروری درآمدات کو روکا جائے تاکہ ملک کی معاشی پیداواری صلاحیت میں کم سے کم منفی اثرات مرتب ہوں۔
جناب اسپیکر!
13۔ موجودہ مخلوط حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے الحمداﷲ ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گراوٹ کو کم کیا گیا ہے۔ حکومت نے IMF پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے۔ IMF پروگرام حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ اسی لئے حکومت باقاعدگی سے IMF کے ساتھ مذاکرات کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہماری حتی المقدور کوشش ہے کہ جلد سے جلد SLA پر دستخط ہو جائیں اور پروگرام کا نواں جائزہ رواں ماہ میں مکمل ہو جائے۔
جناب اسپیکر!
14۔ حکومت کو عوام کی مشکلات کا اندازہ ہے اور اس کی ہرممکن کوشش ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے زیادہ سے زیادہ اقدامات کئے جائیں۔ تاکہ عوام کو مہنگائی کے اثرات سے بچایا جا سکے۔ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے چند ماہ پہلے BISP کے تحت دیئے جانے والے کیش ٹرانسفر کی شرح میں 25 فیصد اضافہ کیا اور بجٹ کو 260 ارب سے بڑھا کر 400 ارب روپے کر دیا۔ اس کا اطلاق یکم جنوری 2023ء سے ہو چکا ہے۔
پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں مفت آٹے کی تقسیم کی گئی۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت کی طرف سے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے ذریعے عوام کو سستی اشیاء کی فراہمی کیلئے 26 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔
پچھلے ایک ماہ میں حکومت نے دو مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی۔ نتیجتاً پٹرول کی قیمت میں 20 روپے، ڈیزل کی قیمت میں 35 روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 17 کمی کی گئی۔ امید ہے اس کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی آئے گی۔
جناب اسپیکر!
15۔ جولائی 2022 سے اب تک حکومت ماضی کی تقریباً 12 ارب ڈالر کے بین الاقوامی قرضہ جات کی ادائیگی کر چکی ہے اور تمام تر بیرونی ادائیگیاں بروقت ہو رہی ہیں۔ اس کے باوجود ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب 34 کروڑ ڈالر ہیں۔
حکومت نے دوست ممالک اور ڈویلپمنٹ پارٹنرز (Development partners)کے ساتھ بھی بہتر تعلقات قائم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں جوکہ پچھلے چند سالوں میں تنزلی کا شکار ہوگئے تھے۔ اس سے معاشی بحالی میں مدد ملے گی۔ حکومت نے غیر ملکی زرمبادلہ کی غیر قانونی ترسیل کو ختم کرنے کیلئے بھی انتظامی اقدامات اٹھائے ہیں جس کے مثبت نتائج ظاہر ہو رہے ہیں۔
جناب اسپیکر!
16۔ موجودہ حکومت نے زرعی شعبے پر سیلاب کے تباہ کن اثرات اور مجموعی مشکلات کو دور کرنے کیلئے 2 ہزار ارب روپے سے زائد کا کسان پیکج دیا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس پیکج کے معیشت پر مثبت اثرات آئے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود زرعی شعبہ میں 1.5 فیصد کی گروتھ ہوئی ہے۔ گندم کی Bumper Crop کی وجہ سے 28 ملین ٹن سے زائد پیداوار ہوئی ہے اور کسان کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔ ہماری دیہی معیشت میں 1500 سے 2000 ارب روپے اضافی منتقل ہوئے۔ اس سے ملک کی مجموعی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔ بجٹ 24۔2023 کے ذریعے حکومت زرعی شعبے کیلئے مراعات کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی تفصیل آگے چل کر پیش کی جائے گی۔ امید ہے کہ یہ اقدامات ملک میں فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے اہم کردار ادا کریں گے۔
جناب اسپیکر!
17۔ رواں مالی سال کے دوران سیلاب سے متاثرہ علاقے ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا نہ کر سکے۔ حکومت نے ان علاقوں میں بحالی کا کام مکمل کر لیا ہے۔ تعمیر نو کیلئے حکومت نے 578 ارب روپے کے منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا ہے اور انشاء اللہ اگلے مالی سال سے یہ علاقے ملکی معیشت میں دوبارہ اپنا فعال کردار ادا کریں گے۔
18۔ رواں مالی سال میں اندرونی اور بیرونی مشکلات کی وجہ سے ایل ایس ایم سیکٹر میں منفی گروتھ کا رجحان رہا۔ اس کی بڑی وجہ زرمبادلہ کی کمی تھی جس کی وجہ سے خام مال کی دستیابی میں مشکلات پیدا ہوئیں۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خام مال کو ترجیحی بنیاد پر ایل سی کھولنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ حکومت اگلے مالی سال میں اس رجحان کو Reverse کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ صنعتی شعبے پر اگلے سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا اسی طرح عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں گراوٹ، ترقی یافتہ ممالک میں Inventory Build up میں کمی اور ملک میں خام مال کی بہتر دستیابی کی وجہ سے بھی ایل ایس ایم میں بہتری آئے گی۔
19۔ مندرجہ بالا اقدامات کے نتیجہ میں ملکی معیشت ایک Vulnerable صورتحال سے نکل کر استحکام (Stability) کی طرف آ رہی ہے۔ بجٹ مالی سال 24۔2023 کے ذریعہ ملک stability سے ترقی (Growth) کی جانب گامزن ہو گا۔ انشاء اللہ
جناب سپیکر!
20۔ اب میں آپ کو بجٹ مالی سال 24۔2023 کی عمومی سمت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ معیشت میں بہتری کی سمت کے باوجود ابھی بھی معیشت کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان حالات کے مدنظر ہم نے اگلے مالی سال کیلئے ترقی کا ہدف (GDP) صرف 3.5 فیصد رکھا ہے جو کہ ایک Modest Target ہے۔ جلد ہی ملک جنرل الیکشنز کی طرف جانے والا ہے، اس کے باوجود اگلے مالی سال کے بجٹ کو ایک الیکشن بجٹ کی بجائے ایک ذمہ دارانہ بجٹ کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔
21۔ ہم نے بھرپور مشاورت کے بعد ان Elements of real economy کو منتخب کیا ہے جن کی بدولت ملک کم سے کم مدت میں ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہو سکتا ہے۔
22۔ بجٹ تجاویز میں ہمارے ترجیحی Drivers of Growth مندرجہ ذیل ہیں:
i۔ Agriculture
زراعت کا شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اگلے مالی سال میں اس شعبے کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی تجاویز ہیں:
٭زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800 ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
٭بجلی/ڈیزل کے بل کسان کے سب سے بڑے اخراجات میں شامل ہیں، اگلے مالی سال میں 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کیلئے 30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭معیاری بیج ہی اچھی فصل کی بنیاد ہیں، ملک میں معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں، اسی طرح Sapplings کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔
٭موسمی تبدیلی کی وجہ سے Harvesting کی مدت کم سے کم ہوتی جا رہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اگر کسان نے تیسری فصل بھی اٹھانی ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ پکی ہوئی فصل کو جلد سے جلد سنبھالا جائے۔ اس کیلئے Combine Harvesters کی ضرورت ہے۔ Combine Harvesters کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے یہ تجویز ہے کہ ان پر تمام ڈیوٹی و ٹیکسز سے استثنیٰ دیا جائے۔
٭چاول کی پیداوار بڑھانے کیلئے Rice Planters, Seeder اور Dryers کو بھی ڈیوٹی و ٹیکسز سے استثنیٰ کی تجویز ہے۔
٭Agro Industry دیہی معیشت میں انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بجٹ میں Agro Industry کو Concessional قرض کی فراہمی کیلئے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
٭زرعی اجناس کی اصل Value Addition ان کی Processing میں ہے، اس سے اجناس بالخصوص پھل اور سبزیوں کے ضائع ہونے کا احتمال بھی کم کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ Food Processing Units روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں، اس تناظر میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں لگائے جانے والے Agro-based Industrial Units جن کا سالانہ Turnover 80 کروڑ روپے تک ہو گا ان کو تمام ٹیکسز سے 5 سال کیلئے مکمل استثنیٰ حاصل ہو گا۔
٭PM’s Youth, Business and Agriculture Loan Scheme کے تحت چھوٹے اور درمیانے درجے کے آسان قرضوں کو جاری رکھا جائے گا اور اس مقصد کیلئے اگلے مالی سال میں مارک اپ سبسڈی کیلئے 10 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔
٭درآمدی یوریا کھاد پر سبسڈی کیلئے اگلے سال کیلئے 6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیلئے چھوٹے کسانوں کو کم مارک اپ پر صوبائی حکومتوں کی شراکت سے قرضہ جات فراہم کئے جائیں گے۔ اس مد میں 10 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔
ii۔ IT and IT Enabled Services
IT and IT Enabled Services معیشت کے سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے شعبے ہیں اور ان کا برآمدات میں نمایاں حصہ ہے، عالمی معیشت میں مسائل کی وجہ سے یہ شعبہ بھی مشکلات کا شکار ہوا، پھر بھی ہمیں یقین ہے کہ یہ شعبہ آنے والے سالوں میں Engine of Growth ثابت ہو گا۔ پاکستان اپنا کاروبار کرنے والے Free Lancers کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ان کو درپیش مسائل کا حل اور عمومی طور پر اس شعبے کے مسائل کو حل کرنے کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات کئے جا رہے ہیں:
٭IT برآمدات کو بڑھانے کیلئے انکم ٹیکس 0.25 فیصد کی رعایتی شرح لاگو ہے، یہ سہولت 30 جون 2026 تک جاری رکھی جائے گی۔
٭ Free Lancers کو ماہانہ سیلز ٹیکس گوشوارے جمع کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا، کاروباری ماحول میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے 24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی Export پر Free Lancers کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کیلئے ایک سادہ Single Page انکم ٹیکس ریٹرن کا اجراء کیا جا رہا ہے۔
٭IT and IT Enabled Services Providers کو اجازت ہو گی کہ وہ اپنی برآمدات کے ایک فیصد کے برابر مالیت کے Software and Hardware بغیر کسی ٹیکس کے درآمد کر سکیں گے۔ ان درآمدات کی حد 50,000 ڈالر سالانہ مقرر کی گئی ہے۔
٭IT اور IT Services کے Exporters کیلئے Automated Exemption Certificate جاری کرنے کو یقینی بنایا جائے گا۔
٭IT شعبہ کو SMEs کا درجہ دیا جا رہا ہے جس سے اس شعبہ کو Concessional Income Tax rates کا فائدہ ملے گا۔
٭IT کے کاروبار کی Mentoring کیلئے Venture Capital کی بہت اہمیت ہے۔ بجٹ میں 5 ارب روپے سے کاروباری سرمائے کی فراہمی کیلئے حکومتی وسائل سے VentureCapital Fund کا قیام کیا جائے گا۔
٭ICT کی حدود میں IT Services پر سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کی جا رہی ہے۔
٭IT کے شعبے میں قرضہ جات کی فراہمی کو ترغیب کیلئے بینکوں کو اس شعبے میں 20 فیصد کے رعایتی ٹیکس کا استفادہ حاصل ہو گا۔
٭اگلے مالی سال میں 50 ہزار IT Graduates کو Professional Training دی جائے گی۔
iii۔ SMEs
SMEsمعیشت کی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے ان کی نشوونما پر اتنی توجہ نہیں دی کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق معیشت میں حصہ ڈال سکیں۔ بجٹ مالی سال 2023-24ء میں SMEs کے لئے درج ذیل اقدامات کیے جائیں گے۔
٭: Construction، زراعت اور SMEs کی حوصلہ افزائی کے لئے ان شعبوں کو قرضے فراہم کرنے والے بینکوں کو ایسے قرضوں سے ہونے والی آمدن پر 39فیصد کی بجائے 20فیصد Concessional Taxکی سہولت اگلے 2مالی سالوں میں یعنی 30جون 2025تک میسر ہو گی۔
٭: SMEs کے ٹیکس مراعات کے نظام کو وسعت دے کر SMEs کا Turnover Thresholdکو 25کروڑ سے بڑھا کر 80کروڑ روپے کیا جا رہا ہے۔
٭: PM`s Youth Loan Programmeکے ذریعے چھوٹے کاروبار کو رعایتی قرضوں کی فراہمی کے لئے اس مالی سال میں 10ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔
٭: اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک سکیم کے تحت SMEکے قرضوں کو صرف 6فیصد مارک اپ پر Refinanceکیا جا سکتا ہے۔ لیکن بینک SMEکی Credit Historyنہ ہونے کی وجہ سے ایسے قرضے دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے حکومت پاکستان اس مد میں دئیے گئے قرضوں کا 20فیصد تک Riskاٹھائے گی۔
٭: SME Assan Finance Schemeکو دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔
٭: SMEs کے لئے علیحدہ Credit Rating Agencyکے قیام کی تجویز ہے۔
iv۔ صنعتی اور برآمدی شعبہ جات
صنعتی بالخصوص برآمدی صنعت ملک کی معیشت کا اہم ترین حصہ ہے۔ برآمدات کی ترویج کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
٭: وزیراعظم پاکستان کی سربراہی میں Export Council of Pakistanکا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ یہ Councilہر سہ ماہی میں کم سے کم ایک میٹنگ منعقد کرے گی اور برآمدات سے متعلق فیصلے کرے گی۔
٭: Mineralsاور Metalsکی برآمد کی ترویج کے لئے کسی بھی Online Market Placeکے ذریعے کسی بھی مقامی خریداری پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی۔
٭: Export Facilitation Schemeکا اجراء کیا جا چکا ہے۔ اس کے تحت Exportersکی سہولیات میں اضافہ ہو گا۔
٭: تمام Listed Compainesپر MInimum Tax، 1.25فیصد سے کم کر کے 1فیصد کر دیا گیا ہے۔
٭: Textileکی انڈسٹری کو فروغ دینے کے لئے مقامی طور پر تیار نہ ہونے والے Synthetic Filament Yarn پر 5فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے اس طرح Pet Scrap پر کسٹم ڈیوٹی کو 20فیصد سے کم کر کے 11فیصد کیا جا رہا ہے۔ Capacitors, adhesive tape, mining machinery, rice mill machineryاور machine toolsکے manufacturers کو بھی کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دیا جا رہا ہے۔
V۔ Overseas Pakistanis
Remittancesزرمبادلہ کا اہم ترین ذریعہ ہیں ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ترسیلات زر ہماری برآمدات کے 90 فیصد کے برابر ہیں۔Formal Channelsسے ترسیلات زر کو فروغ دینے کے لئے مندرجہ ذیل مراعات دی جائیں گی۔
٭: بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے Foreign Remmittanceکے ذریعے غیرمنقولہ جائیداد Immovable Property خریدنے پر موجود Final Tax 2%ختم کیا جا رہا ہے۔
٭: Remittance Cardsکی Categoryمیں ایک نئے ”ڈائمنڈ کارڈ” کا اجراء کیا جا رہا ہے جو کہ سالانہ 50ہزار ڈالر سے زائد Remittanceبھیجنے والوں کو جاری کیا جائے گا۔ اس Categoryکے لئے مندرجہ ذیل مراعات دی جائیں گی۔
One Non-Prohibited Bore License
Gratis Passport
Preferential Access to Pakistani Embassies and Consulates
پاکستانی ائرپورٹس پر Fast Track Immigrationکی سہولت
Remittance Card Holdersکو قرعہ اندازی کے ذریعے بڑے انعامات دینے کے لئے اسکیم کا اجراء کیا جائے گا۔
vi۔ تعلیم
تعلیم کی اہمیت پر کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی۔ گو کہ یہ Subjectصوبائی ذمہ داری ہے لیکن وفاق اس کی ترویج میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتا ہے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
٭:Higher Education Commissionکے لئے
٭:Current Expenditure میں 65ارب اور Development Expenditureکی مد میں 70ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
٭: تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے لئے پاکستان انڈومنٹ فنڈ
(Pakistan Endowment Fund)کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس کے لئے بجٹ میں 5ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ یہ فنڈ میرٹ کی بنیاد پر ہائی سکول اور کالج کے طلبہ و طالبات کو وظائف فراہم کرے گا۔ ہمارا ہدف ہے کہ کسی ہونہار طالبعلم کو وسائل میں کمی کی وجہ سے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ ہونا پڑے۔
٭: لیپ ٹاپ سکیم جس کو صوبہ پنجاب میں 2013-18ء کے دوران بڑی کامیابی سے چلایا گیا تھا۔ رواں مالی سال میں وفاقی حکومت نے ایک لاکھ Laptopsکی Merit based Deserving Studentsمیں تقسیم کا اجراء کیا۔ اسی اسکیم کو جاری رکھنے کے لئے آئندہ مالی سال میں 10ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
٭: کھیل تعلیم کا ایک لازمی حصہ ہے، بجٹ میں سکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کے لئے 5ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
vii۔ Women Empowerment
بجٹ میں Women Empowerment کے لئے 5ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس میں Skill Developmentکاروبار کے لئے سستے قرضے اور کاروبار چلانے کے لئے تربیت جیسے منصوبے چلائے جائیں گے۔ کاروباری خواتین کے لئے ٹیکس کی شرح میں بھی چھوٹ دی گئی ہے۔
viii۔ Youth Enterpreneurship
ہمارے ملک کے نوجوان حکومت کی خاص توجہ کے متقاضی ہیں کیونکہ آج کے نوجوان ہی اس ملک کے روشن مستقبل کے ضامن ہیں۔ وہ قومی ترقی اور خوشحالی میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس لئے تجویز ہے کہ آئندہ تین برس تک کسی نوجوان یا نوجوانوں پر مشتمل AOPکی طرف سے شروع کیے جانے والے کاروبار سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں 50فیصد تک کمی کی جائے۔ یہ رعایت Individualیا AOPکی صورت میں بیس لاکھ روپے تک اور Companyکی صورت میں پچاس لاکھ روپے تک ہوگی۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضرورت ہے کہ کاروبار کے مالک کی عمر تیس سال تک ہو اور یہ کاروبار یکم جولائی 2023ء یا اس کے بعد شروع کیا جائے۔ اس سے کاروبار سرگرمیوں میں حصہ لینے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور نئے Business Ideas رکھنے والے Business Leadersسامنے آ سکیں گی۔
٭: Prime Minister Youth Programme for Small Loansکے تحت اپنا کاروبار شروع کرنے کے لئے رعایتی ریٹ پر قرضہ جات کی فراہمی کے لئے 10ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
٭: Prime Minister Youth Skills Programmeکے تحت نوجوانوں کو Specialized Trainingدینے کے لئے 5ارب روپے مختص کیے ہیں۔
جناب سپیکر
ix۔ Construction Activities کی حوصلہ افزائی
Construction sector معاشی پیداوار میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس شعبہ سے چالیس سے زیادہ صنعتیں جڑی ہوئی ہیں۔ Builders اور عام لوگوں کو نئے گھر اور عمارتوں کی تعمیر پر مراعات دینے کے لئے آئندہ تین سال تک Construction Enterprise کی کاروباری آمدن پر ٹیکس کی شرح میں 10 فیصد یا پچاس لاکھ روپے دونوں میں جو رقم کم ہو رعایت دی جائیگی اور وہ افراد جو اپنی ذاتی تعمیرات کروائیں انہیں تین سال تک دس فیصد ٹیکس کریڈٹ یا دس لاکھ روپے جو رقم بھی کم ہو رعایت دی جانے کی تجویز ہے اس concession کا اطلاق یکم جولائی 2023 اور اس کے بعد سے شروع ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر ہوگا۔
٭ (REIT ) Real Estate investment trsust سے متعلقہ ٹیکس مراعات کو 30 جون 2024 تک توسیع دی جارہی ہے۔
جناب سپیکر:
X ۔ ملک کے پسے ہوئے طبقے کی مالی مشکلات کو کم کرنا بھی اس بجٹ کی اہم ترجیحات میں شامل ہے
٭ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام BISP غربت سے نمٹنے کیلئے حکومت پاکستان کا ایک Flagship پروگرام ہے مالی سال 2021-22 میں اس پروگرام کے لئے 250 ارب روپے مختص کئے گئے تھے موجودہ حکومت نے بجٹ 2023 میں 360 ارب روپے تک بڑھا دیا تھا۔ رواں مالی سال کے دوران اس مد میں 40 ارب روپے کا مزید اضافہ کرکے 400 ارب روپے کیا گیا۔ اگلے مالی سال کے دوران حکومت نے اس مد میں 450 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس پروگرام کے تحت چلنے والی چند اہم اسکیمز مندرجہ ذیل ہیں۔ مالی سال 2023-24 میں BISP کے تحت 93 لاکھ خاندانوں کو 8,750 روپے فی سہ ماہی کے حساب سے بینظیر کفالت کیش ٹرانسفر کی سہولت میسر ہوگی جس کے لئے 346 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ حکومت یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ آئندہ مالی سال میں افراط زر کی مماثلت سے اس میں اضافہ بھی کرے گی۔ بینظیر تعلیمی وظائف پروگرام کا دائرہ کار 60 لاکھ بچوں سے بڑھا کر تقریباً 83 لاکھ تک کیا جائے گا جس میں 52 فی صد تعداد بچیوں کی ہے۔ اس مقصد کیلئے 55 ارب روپے سے زائد رقم رکھی گئی ہے۔
٭ 92 ہزارطالب علموں کو بینظیر انڈر گریجویٹ سکالر شپ دیا جائے گا جس کے لئے 6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
٭ بینظیر نشوونما پروگرام تمام اضلاع میں جاری رہے گا اور پروگرام سے مستفید ہونے والے بچوں کی تعداد بڑھا کر 15 لاکھ کی جائے گی جس کے لئے 32 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
٭ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے لئے 35 ارب روپے سے مستحق افراد کے لئے آٹے چاول چینی دالوں اور گھی پر Targeted subsidy دی جائے گی۔
٭ مستحق افراد کے علاج اور امداد کیلئے پاکستان بیت المال کو 4 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔
٭ یونانی ادویات عام طور پر دیہاتی اور کم آمدنی والے افراد استعمال کرتے ہیں جن کی سہولت کیلئے یونانی ادویات پر سیلز ٹیکس کی شرح 1 فی صد کی جارہی ہے۔
٭ استعمال شدہ کپڑے کم آمدنی والے لوگ خریدتے ہیں اور ان کی درآمد پر اس وقت 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہے جس کو ختم کیا جارہا ہے۔
٭ Natioal Savings سنٹرز کے ذریعے کم آمدن والے افراد کے لئے Micro Deposits کی نئی سکیم یکم جولائی 2023 سے شروع کی جارہی ہے جس پر شرح منافع نسبتًا زیادہ ہوگا۔ یہ اکائونٹ Digitally کھولنے کی سہولت بھی میسر ہوگی۔
جناب سپیکر!
XI ۔ شعبہ توانائی
پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لئے درآمدات پر انحصار کرتا ہے ان درآمدات کی قیمت میں اضافہ افراط زر کی ایک اہم وجہ ہے اس قیمت میں کمی کرنے کے لئے ہماری حکومت پاکستانی کوئلے کے استعمال اور Solar Energy کو فروغ دینے کیلئے پختہ ارادہ رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات کئے جارہے ہیں۔
٭ کوئلے سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں کو ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ مقامی کوئلہ استعمال کریں۔
٭ Solar Panel , Inverter اور Batteries کے Raw Material کو Customs Duty سے استثنیٰ دیا جارہا ہے۔
٭ Crude oil اور Refined petrol products ہماری انرجی کی ضروریات کو بڑاحصہ ہیں۔ ماضی میں کئی بار ملک میں ان مصنوعات کی قلت پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ Supply chain میں تعطل آیا تھا ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے Bonded Bulk Storage policy for POL Products کا اجراء کیا جارہا ہے۔
اس policy کے تحت Foreign Supplier اپنے مالی وسائل سےinternational market سے Crude oil اور Pol products پاکستان درآمد کرکے Bonded bulk storage میں ذخیرہ کرے گا بوقت ضرورت Oli marketing company refinery کو Foriegn supplier سے یہ مصنوعات خریدنے کی اجازت ہوگی۔
جناب سپیکر !
23 ۔ اب میں معزز ایوان کے سامنے رواں مالی سال 2022-23 کے نظرثانی شدہ بحٹ کے اہم نکات پیش کرتا ہوں۔
٭ رواں مالی سال میں FBR کے محاصل 7,200 ارب روپے کے لگ بھگ رہنے کا امکان ہے جس میں صوبوں کا حصہ 4,129 ارب روپے ہوگا۔
٭ وفاقی حکومت کا نان ٹیکس ریونیو 1,618 ارب ہونے کی توقع ہے۔
٭ وفاق کے محاصل 4,689 ارب روپے ہوں گے۔
٭ کل اخراجات کا تخمنیہ 11,090 روپے ہوں گے۔
٭ PSDP کی مد میں اخراجات 567 ارب روپے تک رہنے کا امکان ہے ۔
٭ دفاع پر کم وبیش 1,510 ارب روپے خرچ ہوں گے۔
٭ سول حکومت کے مجموعی اخراجات 553 ارب روپے پنشن پر 654 ارب روپے سبسڈیز کی مد میں 1.093 ارب روپے اور گرانٹس کی مد میں 1,090 ارب روپے خرچ ہوں گے۔
جناب سپیکر!
24 ۔ اب میں اگلے مالی سال 2023-24 کے اعدادوشمار پیش کرتا ہوں۔
اگلے مالی سال کے لئے معاشی شرح نمو 3.5 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے جبکہ افراط زر کی شرح اندازاً 21 فیصد تک ہوگی بجٹ خسارہ 6.54 فیصد اور Primary surplus جی ڈی پی کا 0.4 فیصد ہوگا ۔ اگلے مالی سال کے لئے برآمدات ہدف 30 ارب ڈالر جبکہ ترسیلات زر کا ہدف 33 ارب ڈالر ہے۔
٭ اگلے سال FBR محاصل کا تخمینہ 9,200 ارب روپے ہے جس میں صوبوں کا حصہ 5,276 ارب روپے ہوگا۔
٭ وفاقی نان ٹیکس محصولات 2,963 ارب روپے ہوں گے۔
٭ وفاقی حکومت کی کل آمدن 6,887 ارب روپے ہوگی۔
٭ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 14,460 ارب روپے ہے جس میں سے Interest payment پر 7,303 ارب روپے خرچ ہوں گے ۔
٭ اگلے سال PSDP کے لئے 950 ارب روپے کا بجٹ مختص کیاگیا ہے ۔ اس کے علاوہ Public private partnership کے ذریعے 200 ارب روپے کی اضافی رقم کے بعد مجموعی ترقیاتی بجٹ 1,150 ارب روپے کی تاریخی بلند ترین سطح پر ہوگا۔
ملکی دفاع کیلئے 1.804 ارب روپے سول انتظامیہ کے اخراجات کیلئے 714 ارب روپے مہیاکئے جائیں گے۔ پنشن کی مد میں 761 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بجلی گیس اور دیگر شعبہ جات کے لئے 1.074 ارب روپے کی رقم بطور سبسڈی رکھی گئی ہے۔
٭ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا میں ضم شدہ اضلاع، بی آئی ایس پی، ایچ ای سی، ریلویز اور دیگر محکموں کیلئے 1,464 ارب روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے۔
٭ Working Journalist Health Insuranc، Artist Health Insurance Card کا اجراء کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ Minorities، سپورٹس پرسنز اور طالب علموں کی فلاح کیلئے فنڈز فراہم کئے گئے ہیں۔
٭ پنشن کے مستقبل کے اخراجات کی Liability پورا کرنے کیلئے پنشن فنڈ کا قیام کیا جائے گا۔
جناب سپیکر!
25۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ (پی ایس ڈی پی:
ترقیاتی بجٹ ملکی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ترقیاتی بجٹ کے ذریعے معیشت کی استعداد کار میں اضافہ، بہتر انفراسٹرکچر کی فراہمی، افرادی ترقی، Regional Equity اور انویسٹمنٹ میں اضافے جیسے مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں۔
اگلے مالی سال کیلئے وفاقی ترقیاتی پروگرام کیلئے 1,150 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کا حجم 1,559 ارب روپے ہے۔ اس طرح قومی سطح پر ترقیاتی پروگرام کا حجم 2,709 ارب روپے ہو گا۔ یہ رقم جی ڈی پی کا صرف 2.6 فیصد ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے پچھلے دور میں ترقیاتی اخراجات کا حجم جی ڈی پی کے تقریباً 5 فیصد تک پہنچا دیا تھا۔ پچھلے چار سال کی تباہی و بربادی کی وجہ سے ترقیاتی وسائل آدھے رہ گئے ہیں۔ دوسری جانب ملک کی ترقیاتی ضروریات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ترقیاتی اخراجات ملک کی اہم ترین ترجیحات پر خرچ کئے جائیں۔
مالی سال 2023-24ء کیلئے مجوزہ پی ایس ڈی پی کی نمایاں خصوصیات:
(i) 80 فیصد تکمیل والے منصوبوں کو مکمل کرنے پر توجہ دی جائے گی تاکہ جون 2024ء تک ان کی تکمیل کی جا سکے۔
(ii) براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور جدید ترین انفراسٹرکچر کی فراہمی کیلئے پی ایس ڈی پی کا 52 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے۔
(iii) انفراسٹرکچر کے شعبے میں ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کیلئے مجوزہ مختص رقم 267 ارب روپے (جو کل حجم کا 28 فیصد ہے)، واٹر سیکٹر کیلئے مختص رقم 100 ارب روپے (11 فیصد) ہے۔ توانائی کے شعبے کیلئے مجوزہ مختص رقم 89 ارب روپے (کل مختص رقم کا 9 فیصد ہے)۔ فزیکل پلاننگ اینڈ ہائوسنگ (PP&H) کیلئے مجوزہ مختص رقم 43 ارب روپے یعنی کل مختص رقم کا 4 فیصد ہے۔
(iv) پاکستان کے مختلف علاقوں کی متوازن ترقی کیلئے 108 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں جن میں سے 57 ارب روپے خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع (NMDs) کیلئے، 32.5 ارب روپے AJ&K کیلئے اور 28.5 ارب روپے گلگت بلتستان کیلئے رکھے گئے ہیں تاکہ ان علاقوں کی ترقی کو ملک کے دیگر علاقوں کے نزدیک لایا جا سکے۔
(v) SEZs کی تیز رفتار تکمیل کی نگرانی اور سی پیک کے تحت منصوبوں کی بحالی۔
(vi) موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات کے اثرات کم کرنے کیلئے تعمیرنو اور بحالی کیلئے ترتیب دیئے گئے فریم ورک (4RFs) کے تحت وضع کردہ حکمت عملیوں اور and Climate Change and Infrastructure and Exports, E-Pakistan, Equity and Empowerment (5Es Environment) پلانز کا نفاذ
(vii) سماجی شعبے کی ترقی کیلئے 244 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں تعلیم بشمول اعلیٰ تعلیم کیلئے 82 ارب روپے، صحت کے شعبہ کیلئے 26 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
(viii) سائنس اور آئی ٹی کیلئے 34 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں جبکہ پیداواری شعبوں (صنعت، معدنیات، زراعت) کیلئے 50 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔
(ix) نوجوانوں کی فلاح، سپورٹس اور سکلز ڈویلپمنٹ کی طرف حکومت خاص توجہ دے رہی ہے تاکہ نوجوانوں کو عملی زندگی کیلئے تیار کیا جا سکے۔
(x) بلوچستان کے منصوبوں پر خصوصی توجہ تاکہ اس خطے میں دیگر علاقوں کی نسبت فرق کو ختم کیا جا سکے۔
a۔ توانائی:
بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی بہتری کیلئے 107 ارب روپے کی رقم مہیا کی گئی ہے۔ ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 41 ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں پن بجلی کا حصہ 25 فیصد ہے۔ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ بجلی کی پیداوار میں ملکی وسائل اور Renewable Energy کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے تاکہ ملکی درآمدات کو کم کیا جا سکے اور بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی لائی جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی ترسیل کے نظام میں بہتری لانا بھی حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔ پی ایس ڈی پی میں زیادہ تر توجہ ترسیلی نظام کی بہتری، renewable energy اور آبی وسائل کے استعمال میں اضافہ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
بجلی کے شعبے میں کوئلے سے چلنے والے جامشورو پاور پلانٹ (1200 میگاواٹ) کی تکمیل کیلئے اگلے مالی سال میں 12 ارب روپے کی رقم مہیا کی جائے گی۔ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان 500 کے وی ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے کو آگے بڑھانے کیلئے 16 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ این ٹی ڈی سی کے موجودہ گرڈ سٹیشنز کی استعداد میں بہتری لانے کیلئے 5 ارب روپے، سکی کناری، کوہالہ اور Mahal ہائیڈرو پلانٹ سے بجلی کی ترسیل کیلئے 13 ارب روپے اور داسو ہائیدرو پاور پلانٹ سے بجلی کی ترسیل کیلئے 6 ارب روپے فراہمی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
b۔ آبی وسائل:
پچھلے سال مہمند ڈیم کی تکمیل کیلئے 12 ارب روپے فراہم کئے گئے۔ اگلے مالی سال میں بھی اس منصوبے کیلئے 10 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔ اسی طرح 2160 میگاواٹ استعداد کے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے ترجیحی بنیادوں پر تقریباً 59 ارب روپے کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے 20 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔ دیگر اہم منصوبوں میں 969 میگاواٹ کے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے 4 ارب 80 کروڑ روپے، تربیلا ہائیڈرو پاور کی استعداد میں اضافہ کیلئے 4 ارب 45 کروڑ روپے او وارسک ہائیڈرو الیکٹرک پاور سٹیشن کی بحالی کیلئے 2 ارب 60 کروڑ روپے کی رقم فراہم کی جائے گی۔ ان منصوبوں سے زرعی شعبہ کیلئے پانی کی فراہمی اور سستی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں پینے کے پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کیلئے K-4 Greater Water Supply Scheme کیلئے بھی 17 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مہیا کی جائے گی۔
c۔ ٹرانسپورٹ اور مواصلات:
شاہراہوں اور دیگر مواصلاتی سہولتوں کیلئے ترقیاتی بجٹ میں 161 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ عوام کو مواصلات کی سہولت سے کسان کو منڈیوں تک رسائی ملتی ہے، صنعت و تجارت کو ترقی ملتی ہے اور لاکھوں لوگوں کیلئے روزگار مہیا ہوتا ہے۔ ہماری حکومت نے پہلے بھی ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے میگا پراجیکٹ مکمل کئے جن سے لاکھوں لوگوں کو موٹرویز کی سہولیات میسر آئیں۔
d۔ سوشل سیکٹر:
پاکستان SDGs کے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ اگلے مالی سال میں اس مقصد کیلئے 90 ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے۔
جناب سپیکر!
26۔ اس سال کی ٹیکس پالیسی کے بنیادی اصول یہ ہیں:
i۔ برآمدات میں اضافے کے لئے IT and IT Enabled Services کی حوصلا افزائی۔
ii۔ زرمبالہ کے ذخائر بڑھانے کیلئے Foreign Remittances کا فروغ۔
iii۔ اقتصادی ترقی میں اضافہ کیلئے مقامی صنعتوں کی سرپرستی۔
iv۔ Construction، SMEs اور زرعی شعبے کی حوصلہ افزائی۔
v۔ ملک میں Youth Enterpreneurship کا فروغ۔
vi۔ ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کیلئے Digitization of Economy۔
vii۔ صاحب ثروت افراد پر ٹیکس کا نفاذ۔
viii۔ مہنگائی کی وجہ سے کم آمدن طبقے کیلئے Relief۔
ix۔ Non-Filers کیلئے Transactions کی Cost میں اضافہ۔
جناب سپیکر!
27۔ اس سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا اور حکومت کی کوشش ہے کہ ملک میں عوام کو زیادہ سے زیادہ Relief دیا جائے۔ کوشش یہ ہے کہ روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں۔ کاروبار میں آسانیاں لائی جائیں۔ صنعتوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ جس سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ سکیں۔ اس سلسلے میں زیادہ تر مراعات کی وضاحت میں نے پہلے ہی کر دی ہے۔
جناب سپیکر!
28۔ اب میں انکم ٹیکس کے Revenue Measures کے حوالے سے اقدامات کی تفصیل پیش کرتا ہوں:
i۔ Contrats، Supplies اور Services پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ
زیادہ تر معاشی سرگرمیاں Supply of Goods، Execution of Contracts اور Provision of Services سے متعلق ہوتی ہیں۔ ان Transactions سے حکومت کو ہونے والی آمدنی میں اضافہ کیلئے 1 فیصد ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز ہے۔ اس کا اطلاق Individual، AOP اور Companies پر ہوگا۔
مزید برآں جن Services پر Concesseionary Tax عائد ہوتا ہے ان کی شرح میں بھی 1 فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔ اس تجویز کا اطلاق چاول، کپاس کے بیج، خوردنی تیل، پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا اور سپورٹس پرسنز پر نہیں ہوگا۔
ii۔ سیکشن 4C کے تحت Super Tax کے Rates اور Scope کو Rationalize کرنا
امیروں پر ٹیکس عائد کرنا پاکستان کی Taxation Policy کا رہنما اصول ہے۔ اس لئے زیادہ آمدن والے افراد پر Tax Year 2022 میں سپر ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔ اس کی شرح میں بتدریج ایک سے چار فیصد تک اضافہ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ زیادہ آمدن والے پندرہ بزنسز اور شعبوں پر دس فیصد کی شرح سے Super Tax عائد کیا گیا تھا۔ Super Tax کے نفاذ کیلئے آمدن کی کم سے کم حد 150 ملین روپے مقرر کی گئی تھی۔ Super Tax کو Progressive Taxation میں تبدیل کرنے کیلئے اس ٹیکس Rates کو بتدریج بڑھانے کی تجویز ہے۔
iii۔ کمرشل درآمدات پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح
Commercial Importers اشیاء کی Import کے وقت Minimum Tax ادا کرتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں صنعتیں اپنے منافع پر ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ اس لئے Import of Goods پر Commercial Importers کو ہونے والی آمدن پر Minimum Tax کے Rates کو Rationalize کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان اشیاء کے استعمال اور منافع پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا۔ اس لئے Commercial Importers کی طرف سے اشیاء کی درآمد پر Tax Rate میں 0.50 فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ جو Tax Rate پہلے ہی سے Reduced Rate ہیں۔ ان کی شرح میں اضافہ کی تجویز نہیں ہے۔
iv۔ کمپنیو کی طرف سے جاری کردہ Bonus Shares پر ود ہولڈنگ ٹیکس
کچھ کمپنیاں Tax سے بچنے کیلئے Cash Dividend تقسیم کرنے کے بجائے Bonus Share جاری کرتی ہیں۔ اس لئے In-Kind Dividend پر ٹیکس اکٹھا کرنے کی غرض سے Listed اور Non-Listed کمپنیوں پر 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔
v۔ Non-ATL افراد کی بینک سے Cash Withdrawal پر ٹیکس:
Cash Withdrawal پر ٹیکس عائد کرنا معیشت کو Document کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس لئے Non-ATL افراد کی طرف سے Cash Withdrawal کو Document کرنے اور ان کی Transactions کے اخراجات بڑھانے کیلئے پچاس ہزار روپے سے زائد کے Cash Withdrawal پر 0.6 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔
vi۔ Foreign Domestic Worker رکھنے پر ود ہولڈنگ ٹیکس:
اس وقت کم و بیش 3 ہزار غیرملکی شہری پاکستان کی امیر گھرانوں میں مددگار کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اوسطاً ہر گھریلو مددگار کو سالانہ 6000 ہزار امریکی ڈالر تک تنخواہ دی جاتی ہے۔ گھریلو ملازمین کو ادا کی جانے والی رقم پر ایک Tax Year میں 2 لاکھ روپے کی شرح سے WHT عائد کیا جا رہا ہے۔
vii۔ Foreign Currency کے Outflow کی حوصلہ شکنی:
Foreign Exchange Reserves کو نہ صرف بڑھانے کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں اس میں کمی لانے والے Loopholes بھی بند کرنا ہوں گے۔ اس لئے
Credit/Debit Cards اور Banking Channels کے ذریعے Foreign Currency کے Outflow کو Discourage کرنے کیلئے Filer پر Withholding Tax کی موجودہ شرح 1 فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کی جا رہی ہے جبکہ Non Filer پر یہ شرح 10 فیصد ہوگی۔
29۔ Sales Tax اور Federal Excise:
جناب سپیکر!
i۔ Textiles اور Leather کی مصنوعات کے Tier-1 Retailers پر GST کی موجودہ شرح 12 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کی جا رہی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ٹیکس Branded Textiles and Leather کے قیمتی ملبوسات اور مصنوعات پر لیا جائے گا۔ یہ ٹیکس معاشرے کے اس طبقہ پر عائد کیا جا رہا ہے جو ایسی قیمتی اشیاء خریدنے کا متحمل ہے۔ اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔
جناب سپیکر!
30۔ موجودہ حکومت کی ایک بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ صوبوں کے درمیان ہم آہنگی قائم کی جائے اور پاکستان میں ایک یکساں اور ہم آہنگ ٹیکس کا نظام رائج ہو۔ 2018 میں مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت کے دور میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں کی جانے والی 25 ویں ترمیم کے نتیجہ میں فاٹا اور پاٹا کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس آئینی تبدیلی کو موثر طور پر عملی جامہ پہنائے۔ ان علاقوں کے لوگوں کو 5 سال کیلئے ٹیکسوں سے استثنیٰ دیا گیا تھا۔ یہ مدت 30 جون 2023 کو ختم ہو رہی ہے جس میں مزید ایک سال کی توسیع کی جا رہی ہے۔
31۔ Tier-1 Retailers میں Covered Area کی بنیاد پر ٹیکس ادا کرنے والوں اور ٹیکس وصول کرنے والوں کے درمیان ہمیشہ Dispute رہتا ہے۔ تاجر برادری کے پرزور اصرار پر اور Retail Sector کو Relief دینے کیلئے Tier-1 Retailers کی Definitation میں Covered Area کی شرط ختم کی جا رہی ہے۔
32۔ پرانی اور استعمال شدہ 1800 CC تک کی Asian Make گاڑیوں کی درآمد پر 2005 میں ڈیوٹیز اور ٹیکسز کو Cap کر دیا گیا تھا۔ اب 1300 CC سے اوپر کی گاڑیوں کے ڈیوٹی اور ٹیکسز کی Capping ختم کی جا رہی ہے۔
33۔ گلاس مینوفیکچرر ایسوسی ایشن کی ڈیمانڈ پر Localized کو پروٹیکٹ کرنے کیلئے ایسے گلاس کی مختلف اقسام کی درآمد پر 15 فیصد سے لے کر 30 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی جا رہی ہے۔
34۔ ا سلام آباد کے وفاقی علاقہ میں Digital Payments کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے Restaurant Services پر کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم ادا کرنے پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کی جا رہی ہے۔
ریلیف اقدامات
35۔ سرکاری ملازمین، پنشنرز، فکسڈ انکم افراد وغیرہ کیلئے ریلیف اقدامات:
جناب سپیکر!
حکومت کو سرکاری ملازمین کی مشکلات کا احساس ہے۔ افراط زر کی وجہ سے عام لوگوں کی طرح سرکاری ملازمین کی قوت خرید میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شدید مالی مسائل اور وسائل کی کمی کے باوجود سرکاری ملازمین کیلئے ریلیف اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
٭سرکاری ملازمین کی قوت خرید بہتر بنانے کیلئے تنخواہوں میں Adhoc Relief Allowance کی صورت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
٭درج ذیل موجودہ الائونسز میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے:
i۔Duty Station سے باہر سرکاری سفراور رات کے قیام کیلئے ڈیلی الائونس اور Mileage Allowance۔
ii۔Additional Charge/Current Charge/Deputation Allowance۔
iii۔Orderly Allowance۔
iv۔Special Conveyance Allowance for Disabled۔
v۔Constant Attendant Allowance (Military)
vi۔مجاز پنشنرز کا ڈرائیور الائونس
٭ سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
٭ سرکاری ملازمین کی کم از کم پنشن 12,000 روپے کی جا رہی ہے۔
٭ ICT کی حدود میں کم سے کم اجرت کو 25 ہزار سے بڑھا کر 30 ہزار روپے کیا جا رہا ہے۔
٭ EOBI کی پنشن کو 8,500 سے بڑھا کر 10,000 روپے کرنے کی تجویز ہے۔
٭ مقروض افراد کی بیوائوں کی امداد کیلئے سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کے پچھلے دو ادوار کے بجٹ 1999-2000ء اور 2017-18ء میں Schemes کا اجراء کیا گیا تھا۔ مالی سال 2023-24ء کے حوالے سے ایسی ہی سکیم House Building Finance Corporation کی مقروض بیوائوں کیلئے متعارف کی جا رہی ہے۔ اس کے تحت ان بیوائوں کے 10 لاکھ روپے تک کے بقیہ قرضہ جات حکومت پاکستان ادا کرے گی۔
٭ CDNS کے شہداء اکائونٹ میں ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جا رہی ہے۔
٭ بہبود سیونگ سرٹیفکیٹس میں بھی ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جا رہی ہے۔
جناب سپیکر!
36۔اس سے پہلے کہ میں اپنی بجٹ تقریر کا اختتام کروں، میں اس امر کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے غیور اور روشن خیال عوام اس حقیقت سے پوری طرح روشناس ہو چکے ہیں کہ ان کا اصل دوست اور خیر خواہ کون ہے اور ملک و قوم کا دشمن اور معاشی بدحالی کا ذمہ دار کون ہے۔ میاں محمد شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب اور اب بطور وزیراعظم پاکستان بھرپور طریقے سے خلوص نیت کے ساتھ عوام کی خدمت کی ہے۔ موجودہ مخلوط حکومت نے چودہ ماہ کے قلیل عرصے میں شدید مالی مشکلات اور سازشوں کے باوجود عوام دوست اقدامات اٹھائے ہیں اور ملک کو صحیح معنوں میں Default سے بچا کر Crisis سے نکال کر استحکام کی راہ پر لے آئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ماضی میں بھی ملک کو مشکلات سے نکالا اور اب بھی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے کوشاں ہے۔
جناب سپیکر!
37۔ میں آپ کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ آپ نے میری گزارشات کو توجہ سے سنا اور مجھے اس معزز ایوان اور پاکستانی عوام کے سامنے ایک عوام دوست اور متوازن بجٹ پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے 14 ماہ میں پاکستان نے غیر معمولی معاشی چیلنجوں کا سامنا کیا لیکن میرا یہ پختہ یقین ہے کہ اگر ہم سب اللہ کے بھروسے اور خلوص نیت کے ساتھ اس ملک کی بہتری کیلئے کاوشیں کریں تو یہ دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام جلد حاصل کر لے گا اور اقوام عالم میں اپنا نام روشن کرے گا۔ ان شاء اللہ
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
پاکستان زندہ باد