اسلام آباد۔2جولائی (اے پی پی):وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت پائیدار اور اقتصادی نمو کے حصول کیلئے پرعزم ہے، معیشت کے تمام شعبوں میں اصلاحات متعارف کرائی گئی ہیں، میکرو اقتصادی استحکام کے بعد بلند شرح نمو کیلئے مؤثر اقدامات کئے جا رہے ہیں، حکومتی اقدامات سے بیرونی اور مالیاتی کھاتوں میں بہتری و ایکسچینج مارکیٹ میں استحکام آیا ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے، پاکستان نے مناسب اقدامات کے ذریعے معیشت اور معاشرے کے کمزور طبقات پر کورونا وبا کے شدید اثرات کو کم کیا، معاشرے کے کمزور طبقات اور کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے بڑا مالیاتی پیکیج دیا گیا،
برآمدات، محصولات کی وصولی، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اور اقتصادی شرح نمو میں اضافہ ہوا ہے، زرعی شعبہ اور لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی شرح نمو بڑھ گئی ہے، کرنٹ اکائونٹ بیلنس سرپلس ہو گیا ہے، ترسیلات زر میں 29.4 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی درجہ بندی کو بہتر بنایا ہے، ایف اے ٹی ایف کے 27 میں سے 26 نکات پر عملدرآمد کر دیا ہے، رواں مالی سال کا بجٹ اقتصادی ترقی کا حامل ہے، رواں مالی سال کیلئے شرح نمو کا ہدف 4.8 فیصد مقرر کیا گیا ہے، جامع اور پائیدار اقتصادی نمو کیلئے تمام شعبوں کیلئے ترجیحات متعین کی گئی ہیں، زراعت کا شعبہ روزگار، تجارت اور فوڈ سکیورٹی کے حوالہ سے ہماری ترقی کا محور بنے گا، صنعتی شعبہ کی ترقی کیلئے خام مال پر 45 ارب روپے کے بڑے استثنیٰ دیئے گئے ہیں،
نئی آٹو پالیسی کے تحت ”میری گاڑی سکیم” متعارف کرائی جائے گی، ٹیکسٹائل مصنوعات پر ٹیکس کی شرح 12 سے 10 فیصد اور تعمیراتی پیکیج کے تحت انکم ٹیکس کی شرح 35 سے 20 فیصد کر دی گئی ہے، یورو فائیو ایندھن کی تیاری کیلئے آئل ریفائنریوں کو ٹیکس میں ریلیف دیا گیا ہے، نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم کے تحت کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کیلئے 30 ارب روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے، سماجی تحفظ اور غریبوں کی مالی معاونت کیلئے بجٹ میں احساس پروگرام کیلئے 260 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں،
اقتصادی ترقی، بے روزگاری اور غربت میں کمی کیلئے ترقیاتی بجٹ 630 ارب روپے سے بڑھا کر 900 ارب روپے کر دیا گیا ہے، گردشی قرضے کا مسئلہ حل کرنے کیلئے مینجمنٹ پلان تیار کیا ہے، کم آمدنی والے بجلی کے صارفین کو سبسڈی کی فراہمی جاری رہے گی، بجلی کی ترسیل و تقسیم کا نظام بہتر بنایا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو ہیڈکوارٹرز سدرن کمانڈ کے زیراہتمام پاکستانی معیشت کی صورتحال اور اس سے نمٹنے کی حکمت عملی کے موضوع پر قومی ورکشاپ سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ ہیڈکوارٹرز سدرن کمانڈ کی طرف سے پاکستانی معیشت کی صورتحال کے بارے میں بات چیت کیلئے مدعو کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے لئے باعث اعزاز ہے کہ میں اس ورکشاپ کے شرکاء کو معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے کئے جانے والے اقدامات اور کورونا وبا جیسے نمایاں چیلنجوں کے باوجود پچھلے تین سال کے دوران پاکستان کی اقتصادی شعبہ میں ہونے والی پیشرفت کے بارے میں آگاہ کروں۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی قومی سلامتی اور معاشی سلامتی کا آپس میں گہرا تعلق ہے، موجودہ حکومت بلند ترین، پائیداور جامع اقتصادی نمو کے حصول کیلئے میکرو اور مائیکرو سطح پر معیشت کو مؤثر اور مضبوط بنانے کیلئے پرعزم ہے، اس سلسلہ میں حکومت نے معیشت کے تمام شعبوں میں جامع اقتصادی اصلاحات متعارف کرائی ہیں، ہم نے میکرو اقتصادی استحکام حاصل کر لیا ہے اور اب ہم بلند اقتصادی نمو کی طرف گامزن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نمایاں میکرو اقتصادی عدم توازن کے ساتھ اقتصادی بحران ورثہ میں ملا ہے اور 20 ارب ڈالر کا بلند ترین کرنٹ اکائونٹ خسارہ تھا، 56 ارب ڈالر کی درآمدات 25 ارب ڈالر کی برآمدات کا 224 فیصد تھیں جن کی شرح 2012-13ء میں 162 فیصد تھی، اوور ویلیو ایکسچینج ریٹ کے ذریعے درآمدات پر رعایت دی جا رہی تھی اور ایکسچینج ریٹ تقریباً پانچ سال کے دوران 104 روپے رہا، اس عرصہ کے دوران برآمدات میں اضافہ کی شرح 0.14 فیصد تھی جبکہ درآمدات میں 100 فیصد سے کی شرح سے اضافہ ہوا، 30 جون 2013ء کو قرضے اور ادائیگیاں 16 ٹریلین روپے تھیں جو 30 جون 2018ء کو تیزی سے بڑھتی ہوئیں تقریباً 30 ٹریلین روپے تک پہنچ گئیں اور ان میں 14 ٹریلین روپے یا 88 فیصد کا اضافہ ہوا۔
اس کے علاوہ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس کی شرح اور مالیاتی خسارہ میں بھی اضافہ کا رجحان تھا۔ افراط زر کی شرح سٹیٹ بینک سے بہت زیادہ رقوم لینے اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے تیزی سے بڑھ رہی تھی، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر جو زیادہ تر قرضے لے کر بنائے گئے تھے جون 2013ء میں 6 ارب ڈالر تھے اور یہ 2016ء کے آخر میں بڑھ کر تقریباً 20 ارب ڈالر ہو گئے لیکن جون 2018ء کے اختتام تک تیزی کے ساتھ کم ہو کر 10 ارب ڈالر پر آ گئے۔
انہوں نے کہا کہ نقد ادائیگیوں کے ذریعے 485 ارب روپے کے بڑے گردشی قرضہ کے خاتمہ کے باوجود 1.2 ٹریلین روپے کا بہت بڑا گردشی قرضہ دوبارہ جمع ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ بلند شرح نمو کے حصول کا دعویٰ کیا گیا لیکن یہ بے تحاشا قرضوں کے حصول، ایکسیچینج ریٹ میں اضافہ، کم شرح سود اور سٹیٹ بینک سے بے تحاشا قرضوں پر مبنی تھا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنا، دیوالیہ ہونے سے بچنا اور پائیدار اقتصادی استحکام کا حصول تھا، حکومت نے بحران سے بچنے کیلئے بعض مشکل فیصلے کئے اور دوطرفہ معاہدوں، کثیر طرفہ پروگرام، آئی ایم ایف پروگرام اور تاخیر سے تیل کی ادائیگیوں کے ذریعے مضبوط اور پائیدار معیشت کی بنیاد رکھی، شرح تبادلہ میں ردوبدل، برآمدی صنعتوں کو مراعات کی فراہمی، پرتعیش درآمدی اشیاء پر ڈیوٹیوں کے نفاذ، توانائی کی قیمتوں کو بہتر بنانے، کفایت شعاری کے اقدامات کے ذریعے اخراجات کے ٹھوس انتظام، ضمنی گرانٹ کی عدم فراہمی اور سٹیٹ بینک سے قرضے نہ لے کر کرنٹ اکائونٹ خسارے کے معاملہ کو حل کیا گیا ہے،
ان اقدامات کے نتیجہ میں بیرونی اور مالیاتی کھاتوں میں بہتری آئی ہے، ایکسچینج مارکیٹ میں استحکام آیا ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے، ہم معاشی استحکام سے زیادہ نمو کی طرف بڑھ رہے ہیں، حکومت بھرپور کوششوں کے بعد معیشت کو مستحکم بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، کووڈ۔19 کی وجہ سے پاکستان کیلئے کئی طرح کے چیلنج پیدا ہوئے، کووڈ سے پہلے 2020ء میں عالمی معیشت کی نمو کا تخمینہ 3.4 فیصد تک تھا لیکن کووڈ۔19 کی وجہ سے عالمی معیشت کی نمو 3.3 فیصد پر آ گئی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں امریکہ کی شرح نمو 3.5 فیصد، یوریشیا منفی 6.6 فیصد، برطانیہ منفی 9.9 فیصد اور جاپان منفی 4.8 فیصد رہی جبکہ دیگر بہت سے ممالک کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ مالی سال 2020ء میں اقتصادی شرح نمو کم ہو کر 0.47 فیصد تک آ گئی، پاکستان نے مناسب اقدامات کے ذریعے معیشت اور معاشرے کے کمزور طبقات پر کورونا وبا کے شدید اثرات کو کم کیا،
حکومت نے 1240 ارب روپے کے سب سے بڑے مالیاتی پیکیج کا اعلان کیا اور اس پیکیج میں سٹیٹ بینک سے صنعتی شعبہ اور بالخصوص چھوٹی اور درمیانے درجے کے کاروبار کیلئے مالی مدد بھی شامل تھی۔ اس کے علاوہ کم لاگت کے گھروں اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے کنسٹرکشن پیکیج کا بھی اعلان کیا گیا جس کے نتیجہ میں پاکستان خطہ کے دیگر ممالک کے برعکس کورونا وبا کے تباہ کن اور منفی اثرات سے بڑی حد تک بچنے میں کامیاب رہا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 2021ء میں پاکستانی معیشت نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور شرح نمو 3.9 فیصد رہی جبکہ زرعی شعبہ کی نمو 2.77 فیصد، صنعتی شعبہ کی نمو 3.57 فیصد اور خدمات کے شعبہ کی نمو 4.43 فیصد رہی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ زرعی شعبہ میں تاریخی بہتری دیکھنے میں آئی، گندم، چاول اور مکئی جیسی فصلوں کی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہوا جبکہ گنے کی فصل کی پیداوار ملکی تاریخ میں دوسرے نمبر پر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صنعتی شعبہ نے بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی اتنی شرح نمو پچھلے ایک عشرے میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ مالی سال 2021ء میں جولائی سے اپریل تک اس کی شرح نمو 12.8 فیصد رہی جو کہ گذشتہ سال کے اس عرصہ میں منفی 8.7 فیصد تھی۔ اسی طرح سیمنٹ کی فروخت میں 20.9 فیصد، تیل کی فروخت میں 18 فیصد، کاروں کی پیداوار میں 49.7 فیصد اور ٹریکٹر کی پیداوار میں 59 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان اعداد و شمار اور کارکردگی سے بلارکاوٹ بھرپور معاشی سرگرمیوں کی عکاسی ہوتی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی اور ضلعی انتظامیہ کی مؤثر نگرانی کی وجہ سے مالی سال 2021ء میں جولائی سے مئی تک افراط زر کی شرح 8.8 فیصد رہی جو کہ اس سے پچھلے مالی سال میں 10.9 فیصد تھی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس وصولی میں بھی 18 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یہ 4 ہزار ارب روپے کی نفسیاتی حد عبور کر گئی ہے اور یہ وصولی ریفنڈز کی ادائیگی روک کر نہیں کی گئی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ترسیلات زر اور برآمدات میں اضافہ کے ذریعے فاضل کرنٹ اکائونٹ بیلنس کی وجہ سے پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں کی صورتحال بہتر ہوئی ہے، کرنٹ اکائونٹ خسارہ جو کہ مالی سال 2020ء میں جولائی سے مئی تک 4.3 ارب ڈالر (جی ڈی پی کے منفی 1.8 فیصد) تھا جو مالی سال 2021ء میں جولائی سے مئی تک 0.2 ارب ڈالر (جی ڈی پی کے 0.1 فیصد) سرپلس ہو گیا۔ مالی سال 2021ء میں جولائی سے مئی تک برآمدات 10.3 فیصد اضافہ کے ساتھ 23 ارب 10 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں جو کہ اس سے پچھلے مالی سال کے اس عرصہ میں 21 ارب ڈالر تھیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو 2020ء میں سب سے زیادہ ترسیلات زر وصول کرنے والے 10 بڑے ممالک میں شامل کیا گیا ہے اور اس کا حصہ جی ڈی پی کے تناسب سے مالی سال 2021ء میں جولائی سے مئی تک 9.9 فیصد تک بڑھ گیا۔ ترسیلات زر 29.4 فیصد کے اضافہ کے ساتھ 26 ارب 70 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکائونٹ میں بہتری کی وجہ سے انٹر بینک مارکیٹ میں سرمائے میں اضافہ ہوا ہے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے ہیں۔ اس عرصہ میں موڈیز، فچ اور سٹینڈرڈ اینڈ پورز تینوں بڑی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی درجہ بندی کو بہتر بنایا ہے اور اس سے حکومت پاکستان کی ٹھوس پالیسیوں اور ملکی معاشی صورتحال پر ان بڑے بین الاقوامی اداروں کے اعتماد کی عکاسی ہوتی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان نے ٹھوس اصلاحات اور سختی سے عملدرآمد کے ذریعے ایف اے ٹی ایف کے 27 میں سے 26 نکات پر عملدرآمد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مالی سال 2021-22ء کا بجٹ اقتصادی نمو کا حامل ہے اور یہ سٹرٹیجک ترجیحات کے واضح روڈ میپ ریونیو اور اخراجات کے منصوبوں کے ساتھ معاشی نمو کو بہتر بنانے کی حکمت عملی پر تیار کیا گیا ہے۔ رواں مالی سال کیلئے شرح نمو کا ہدف 4.8 فیصد مقرر کیا گیا ہے اور بلند ترین جامع اور پائیدار اقتصادی نمو کے حصول کیلئے رواں مالی سال کے بجٹ میں تمام شعبوں کیلئے ترجیحات متعین کی گئی ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ روزگار، تجارت اور فوڈ سکیورٹی کے ساتھ ربط کی وجہ سے زراعت ہماری ترقی کا محور ہو گی، اس سلسلہ میں بیج، زرعی قرضے، کھاد، زرعی مشینری، زراعت پر مبنی صنعتوں، کولڈ چینز، سٹوریج اور آڑھتی کا کردار ختم کرنے کیلئے ملک بھر میں زرعی منڈیاں کے قیام کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبہ کی ترقی کیلئے 25 ارب روپے کی اضافی رقم مختص کی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ صنعتی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے اس شعبہ کو مراعات دی جا رہی ہیں، خام مال پر 45 ارب روپے کے بڑے استثنیٰ دینے کا مقصد معیشت کے اس ہم شعبہ میں مسابقت کو فروغ دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کیلئے فکسڈ ٹیکس سکیم اور ٹیکس گوشوارے کو آسان بنانے، رسک شیئرنگ، قرضے کی فراہمی سمیت مختلف سکیمیں تیار کی گئی ہیں جن کیلئے 12 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صنعتی شعبہ کیلئے بجلی کا خصوصی ٹیرف دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے پلیٹ فارم کے ذریعے صنعتوں کو ری لوکیٹ کیا جا سکے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نئی آٹو پالیسی لا رہے ہیں اور ”میری گاڑی سکیم” متعارف کرائی جا رہی ہے، آٹو پالیسی میں مراعات کے حصہ کے طور پر 850 سی سی تک کی گاڑیوں کیلئے آٹو شعبہ کو پہلے سے دیا جانے والا ٹیکس ریلیف 1000 سی سی گاڑیوں تک بڑھایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل مصنوعات پر ٹیکس 12 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کر دیا گیا ہے، تعمیراتی پیکیج کے تحت انکم ٹیکس کی شرح 35 فیصد سے کم کرکے 20 فیصد کر دی گئی ہے، آئل ریفائنریوں کو بھی ٹیکس میں ریلیف دیا گیا ہے تاکہ وہ یورو فائیو ایندھن تیار کر سکیں۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ برآمدات کا فروغ ہماری گروتھ سٹرٹیجی کا ایک اہم حصہ ہے اس سلسلے میں ہم مختلف اقدامات اٹھا رہے ہیں جس میں برآمد کنندگان پر عائد ٹیکسز کو معقول بنایا گیا ہے اور ویلیو ایڈڈ پراڈکٹس پر مراعات دی جارہی ہیں، برآمدی بنیاد کو بڑھانے کیلئے نئی پراڈکٹس متعارف کرائی گئی ہیں جن میں آٹو سپیئر پارٹس، موٹر سائیکلز، فارما سیوٹیکلز، انڈسٹری اور سیمنٹ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئی ٹی کی صنعت کو اپنا مستقبل بنا رہے جو ہماری برآمدات کو آگے لے جائے گی۔
اس مقصد کیلئے 100 فیصد ٹیکس کریڈٹ کے دائرہ کار کے تحت آئی ٹی اور آئی ٹی سروسز لائی گئی ہیں خصوصی اقتصادی زونز اور سپیشل ٹیکنالوجیز زونز میں سرمایہ کاری کی جائے گی اور ڈی ایل ٹی ایل کلیمز کی ادائیگی کیلئے بیس ارب روپے مختص کئے گیے ہیں، مکانات اور تعمیرات کے شعبے سے متعلق وزیر خزانہ نہ کہا کہ وزیراعظم کے ہائوسنگ اور تعمیرات کے شعبہ کے لئے پیکج سے اس شعبہ میں اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے اور حکومت نے ایک جامع تعمیراتی پیکج متعارف کرایا ہے اور نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم کے تحت کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کیلئے تیس ارب روپے فراہم کئے جارہے ہیں۔
توانائی کے شعبہ سے متعلق انہوں نے کہا کہ حکومت کو بجلی کی پیداواری صلاحیت میں غیرمعمولی توسیع لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے گردشی قرضے کے انتظام کا ایک منصوبہ تیار کیا ہے جس میں لائن لاسز میں کمی کرنا اور وصولیوں کو بہتر کرنا شامل ہے، ہم کم آمدنی والے بجلی صارفین کو سبسڈی فراہم کریں گے، حکومت ترسیل اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنا رہے ہیں، وسائل کے سلسلے میں آئندہ مالی سال کیلئے 5800 ارب روپے کی ٹیکس وصولی مقرر کی گئی ہے اور خودکار جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اس ہدف کو پورا کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ ٹیکسوں کی وصولی کے سلسلے میں یونیورسل خود تشخیصی تقسیم اور تھرڈ پارٹی آڈٹ کو بروئے کار لایا جائے گا۔
ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی اور وزیر خزانہ کی سربراہی میں مشتمل ایک کمیٹی ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو گرفتار کرنے کی مجاز ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ترقیاتی بجٹ 630 ارب روپے سے بڑھا کر 900 ارب روپے کردیا ہے تاکہ اقتصادی ترقی کو فروغ دیا جائے۔ بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ ہوسکے اور ملک میں جامع ترقی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی ترجیحات میں توانائی، پانی، ٹرانسپورٹ ، مواصلات، ایس ڈی جیز، صحت اور تعلیم شامل ہیں۔
ڈویلپمنٹ پلان کیلئے فنڈز مختص کرنے کے علاوہ جنوبی بلوچستان، کراچی ٹرانسمیشن پروگرام، گلگت بلتستان، سندھ کے 14 پلس ترجیح اضلاع اور خیبرپختونخوا کے نو ادغام شدہ اضلاع کیلئے ترقیاتی منصوبہ شامل ہے۔مالیاتی نظم و نسق کے سلسلہ میں انہوں نے کہا کہ ہم مالی سال 2022ء میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 7.1فیصد سے کم کرکے 6.3 فیصد کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تین سالوں میں بنیادی خسارے میں 3.2 فیصد کمی کی جو مالی سال 2019ء میں 3.8 فیصد تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بجٹ کے تقدس کو برقرار رکھا اور حکومتی فنڈز کے استعمال میں بہتر نظم و نسق پیدا کیا، سوشل سیکورٹی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم معاشرے کے کمزور طبقات کی حالت بدلنے کیلئے تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ضرورت مند طبقات کو نچلی سطح پر اثرات مرتب ہونے کے رحم کرم پر نہیں چھوڑیں گے ۔اس سلسلے میں بجٹ 2021-22 ء میں ایک نئے ترقیاتی پیکج اعلان کیا گیا ہے جو عام آدمی کیلئے ایک گیم چینجر ہوگا، کاشتکاروں کو قرضے فراہم ہوں گے، نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع ملیں گے کم آمدن والے لوگوں کو مکانات اور صحت کارڈ کی سہولت میسر آئے گی جس سے عوام کے طرز زندگی میں بہتری آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت غریب اور متوسط طبقہ کو قرضے کی کم رسائی ہے اس مسئلے کے حل کیلئے ہم نے بینکنگ کے شعبے کے وسائل کو ہول سیلر کے طور استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے غریب اور متوسط طبقے کی بینکاری کے شعبے تک رسائی ہوگی، حکومت مارک اپ کی لاگت برداشت کرے گی اور ضمانتیں فراہم کرے گی۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم عوام کی دہلیز پر مالی وسائل لائیں گے، ہم کم آمدن والے لوگوں کو جامع پیکج دے رہے ہیں اس کا نعرہ ماضی میں تو بڑے لیڈروں نے لگایا مگر عوام کو کچھ نہ ملا تو ہمارے لئے یہ بڑی کامیابی ہے کہ ہم نے سماجی شعبہ کیلئے فنڈز مختص کئے بالخصوص احساس کے تحت کیش ٹرانسفر پروگرام دیا جو سماجی تحفظ کیلئے حکومت کا ایک بڑا پروگرام ہے۔
بجٹ 2021-22ء میں احساس پروگرام کیلئے260 ارب روپے دیئے جارہے ہیں جو ایک خطیر رقم ہے۔ہمارے معاشرہ کے انتہائی غریب طبقات کی مدد کیلئے وزیراعظم کے وژن کا عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کلی اور پائیدار ترقی کی ضرورت ہے، درمیانی مدت میں گروتھ ٹارگٹ چھ تا سات فیصد مقرر کیا گیا ہے اور مقصد کے حصول کیلئے اقتصادی استحکام کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس بات کو یقینی بنانے کا عزم کر رکھا ہے کہ ترقیاتی رفتار برقرار رہے۔
ہمارا ترقیاتی منصوبہ ملک کو اس کے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے ہے، قرضوں کے استعمال سے ترقی نہیں لائے جائے گی بلکہ سرمایہ کاری، پیداواریت اور صلاحیت میں اضافے کے ساتھ ترقی کو فروغ دیا جائے گا۔ حکومت معیشت کو ہائر گروتھ ٹریجکٹری پر ڈالے گی۔ معیشت کے فروغ اور استحکام کیلئے اقدامات کئے جارے ہیں تاکہ ملک نہ صرف خودکفیل ہوسکے بلکہ اپنے عالمی مسابقت کاروں کا مقابلہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھ سکے۔