اسلام آباد۔11جون (اے پی پی):وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ اس وقت ہمیں پائیدار گروتھ اور شرح نمو میں تسلسل چاہیے، ریونیو بڑھانے کیلئے ایف بی آر میں ٹیکنالوجی کا استعمال کریں گے، پہلے بینک غریب لوگوں کو قرضے نہیں دیتے تھے، ہماری حکومت نے محروم طبقے کی مدد کرنی ہے، ملک نے معاشی استحکام حاصل کر لیا ہے، طویل المدتی بنیادوں پر پائیدار معاشی ترقی چاہیے، ایسی اقتصادی ترقی چاہتے ہیں جس میں تمام معاشی شعبے شامل ہوں، ایف بی آر آمدن میں 22 فیصد اضافہ دیکھنا چاہتا ہے۔ جمعہ کو نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئےوفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ 508 ارب میں سے 264 ارب ٹیکس ردوبدل کرکے حاصل کر لیا جائے گا، 240 ارب ٹیکس حاصل کرنے کیلئے محنت کرنا پڑے گی، پہلے 3 لاکھ 12 ہزار نئے ٹیکس پیئرز سے 54 ارب روپے حاصل ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے 10 لاکھ نئے ٹیکس پیئرز کی توقع ہے، نئے ٹیکس پیئرز سے 150 ارب روپے آمدن حاصل متوقع ہے، بجٹ میں پوائنٹ آف سیلز سے 30 ارب روپے ملنے کی امید ہے، ٹریک اینڈ ٹریس اور کسٹمز میں اصلاحات لاکر 500 ارب حاصل کیا جاسکتا ہے۔ شوکت ترین نے کہا کہ ایف بی آر کو 5 ہزار 800 ارب روپے سے زائد کا ٹارگٹ دیا گیا ہے، حکومت غریب آدمی کو قرض کی سہولت فراہم کریں گے، وزیر اعظم عمران خان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ لوگوں کو آسان شرائط پر قرضے دیے جائیں ،بینکوں کو چھوٹے کاشتکاروں کو قرض دینے کیلئے راغب کیا جارہا ہے، عوام کو قرض کا پیسہ بجٹ سے نہیں بینکوں سے ملے گا، حکومت اس سلسلے میں سبسڈی دے گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے سے خزانے پر 100 ارب سے کم کا بوجھ پڑے گا، موبائل ڈیٹا پر ٹیکس کی تجویز کو روک لیا گیا ہے، جائزہ لے رہے ہیں کہ موبائل انٹرنیٹ پر ٹیکس نہیں ہوگا، موبائل کال پر ایک روپیہ ٹیکس کی تجویز کا جائزہ لیں گے، ایس ایم ایس پر 10 پیسے ٹیکس کی تجویز کا جائزہ لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کنسٹرکشن پیکج 30 جون کو ختم نہیں ہورہا، زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ میں آنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپنا پورا بجٹ پلان آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیا ہے، آئی ایم ایف نے کہا تھا دیا تھا کہ اپنا بجٹ الائونس کریں، اس حوالے سے آئی ایم ایف سے بات چیت جاری رہے گی، آئی ایم ایف کی ٹیرف بڑھانے کی شرط کو ہم نے نامنظور کیا ہے کیونکہ اس سے غریب آدمی متاثر ہوتا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو واضح کیا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نہیں آرہا ، پاکستان اور ایم آئی ایف دونوں چاہتے ہیں کہ پروگرام جاری رہے۔ انہوں نے کہا کہ پٹرولیم لیوی کی مد میں 6 سو ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف رکھا گیا ہے، ایک سے ڈیڑھ ماہ تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑھائیں لیکن اس بار بڑھانی پڑیں گی، حکومت کو دوسری طرف سے ٹیکس کی مد میں پیسے مل رہے تھے اس لئے پہلے پٹرولیم لیوی کو نہیں بڑھایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دو بلین ڈالر سعودی عرب کو وقت سے پہلے ادا کر دیئے ہیں، ہمیں آمدن بڑھانی ہے، آمدن پوری نہیں ہوگی تو خرچے کیسے پورے ہوں گے۔