
لاہور ۔ 10 فروری (اے پی پی) وفاقی وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل نے کہا ہے کہ جو قوم اپنے لباس اور تہذیب کو بھول جاتی ہے وہ بے زبان ہو جاتی ہے ،ہمیں اپنے کلچر اور آرٹ کی قدر کرنی چاہیے،ہماری حکومت انسانوں پر کام کر رہی ہے،پاکستان کو دنیا کے لیے کھول دیا گیا ہے، پاکستان کی مہمان نوازی دنیا کو دکھانا بہت ضروری ہے،حکومت بسنت اور بیساکھی جیسے تہواروں کو دوبارہ زندہ کر رہی ہے،بسنت فیسٹیول ہے یہ صرف پتنگیں اڑانے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل تہوار ہے، بد قسمتی سے اسے گردن کاٹنے کی علامت بنا دیا گیا، وہ اتوار کو لاہور میوزیم میں پاکستان کے معروف خطاط فقیرمحمد صادقین کی 32ویں برسی کے موقع پر ان کی لگائی گئی نمائش کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہی تھی۔ زرتاج گل نے کہا ہے کہ آرٹسٹ پاکستان کا روشن چہرہ ہیں، نیشنل کالج آف آرٹس نے بڑے خطاط پیدا کئے اور پنجاب یونیورسٹی نے بڑے لیڈر پیدا کیے لاہور میوزیم ایک تاریخی مرکز ہے ،یہاں طلبہ تاریخی ورثے اور نوادرات ایسے بیش بہا خزانے کا مطالعہ کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ جو قومیں اپنے تاریخی ورثے کو اور اپنے قومی ہیروز کو بھول جاتی ہیں وہ اپنی شناخت کھو دیتی ہیں ہمیں اپنے تاریخی ورثے ،نوادرات اور قومی ہیروز کی شناخت اور ان کی خدمات کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے زرتاج گل نے کہا کہ ہمیں غیروں کی تاریخ پر بات کر نے کی بجائے اپنے آرٹسٹوں کو اہمیت دینی چاہیئے ، اپنے آرٹسٹ اپنے ملک کی عزت کرنی چاہیے، حکومت آرٹسٹوں کی عزت کرے گی اور ان کے حقوق بھی دیں گے ، انہوں نے کہا کہ طلبہ کو عملی طور پر مصوری کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے انہوں نے کہا کہ موبائل ٹیکنالوجی نے ہمیں اپنوں سے دور کر دیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ طلباء عملی زندگی میں ریسرچ گاہوں کا مطالعہ کریں اور اپنے خطاطوں، مصوروں قومی ہیروز کی حالات زندگی کا مطالعہ کریں اور انکی خدمات کو اُجاگر کریں، زرتاج گل نے کہا ہے کہ میں نے نصرت فتح علی خان اور استاد امانت علی خان کو سامنے بیٹھ کر سنا ہے ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صادقین کے بھتیجے محمد سلطان نے کہاکہ صادقین آرٹ کو عبادت سمجھتے تھے کمرشلزم کو پسند نہیں کرتے تھے نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل مرتضیٰ جعفری نے کہا کہ ہمیں اپنے ورثے کی حفاظت اور اس کی تشہیر نہیں کرنی آتی منفی چیزوں کی تشہیر زیادہ کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ صادقین ایسے بڑے پایہ کے خطاط کے بارے میں نئی نسل کو نہیں بتا سکے کہ وہ کیا تھے انہوں نے کہا کہ صادقین آخری ایام میں کہتے تھے کہ میری شاعری خطاطی اور خطاطی کو مصوری میں بدلتے دیکھ رہا ہوں۔ صادقین کے ساتھ کام کرنے والے ااطہر طاہر نے کہا کہ صادقین انسان عظیم مخیرتھے اور کسی سے پیسے بھی نہیں لیتے تھے پروفیشنل خطاط تھے اور ملکی تاریخ میں صادقین کے علاوہ کسی اور نے اتنی زیادہ تعداد میں معیاری کام نہیں کیا ہمیں نئی نسل کو صادقین کی مصوری اور خطاطی کے بارے ان کی خدمات سے آگاہ کرنا چاہیے ۔ڈائریکٹر لاہور میوزیم میڈم ثمن رائے نے کہا کہ 10 فروری 1987 کو صادقین وفات پا گئے تھے اور آج کے روز لاہور میوزیم نے ان کی برسی کے موقع پر نمائش کا اہتمام کیا ہے صادقین کی یاد میں لاہور میوزیم میں ان کے زیر استعمال اشیاء ، خطاطی اور مصوری کو عام لوگوںکے لیے پیش کیا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ صادقین کی گراں قدر خدمات کو اور ان کے کاموں کو نئی نسل تک منتقل کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ انہوں نے فن پاروں اور خطاطی کے میدان میں کس قدر محنت اور لگن سے کام کیا۔ قبل ازیں وفاقی وزیر مملکت برائے ماحولیات زرتاج گل نے صادقین کی 32ویں برسی کے موقع پر لاہور میوزیم کی طرف سے لگائی جانے والی نمائش جن میں ان کی خطاطی مصوری کے علاوہ ان کے زیر استعمال اشیاء کی نمائش کا افتتاح کیا ۔