وفاقی کابینہ نے پاکستان کے شہریوں پر مرکوز ملک کی پہلی جامع قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دے دی ہے ، ڈاکٹر معید یوسف

143

اسلام آباد۔28دسمبر (اے پی پی):قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے اعلان کیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے ایک تاریخی اقدام کے طور پر شہریوں پر مرکوز ملک کی پہلی جامع قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دے دی ہے جس کی بنیاد اقتصادی سلامتی پر مبنی ہے۔منگل کو یہاں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین کے ہمراہ مشترکہ میڈیا بریفنگ میں کابینہ اجلاس کے فیصلوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے قومی سلامتی پالیسی (این ایس پی) کی توثیق کے بعد کابینہ نے اس کی منظوری دے دی ہے۔

ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ میں اس کامیاب کوشش پر پوری قوم کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اگر کسی ملک کا قومی سلامتی کا وژن غیر واضح ہے تو اس کے تحت پالیسی بنانا بہت مشکل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس پالیسی میں قومی سلامتی کے مجموعی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور وزیر اعظم کی قیادت میں یہ ضابطہ بندی کی گئی ہے کہ اقتصادی سلامتی پالیسی کا بنیادی مرکز ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ مضبوط معیشت دفاعی اور انسانی سلامتی پر مزید اخراجات کو یقینی بنا سکے گی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بیرونی اقدامات کے حوالے سے پالیسی کا مقصد ’’امن‘‘ہے۔ نیشنل سکیورٹی پالیسی کے تحت قومی ہم آہنگی کے لئے ملک نے اپنے ثقافتی اور نسلی تنوع کے سب سے اہم پہلو کی نشاندہی کی ہے، اس حوالے سے قومی اتحاد قائم کیا جانا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ہم ایک اسلامی ریاست ہیں اور اسلامی ملک کا نظریہ رکھتے ہیں لہذا قومی ہم آہنگی کے پالیسی پہلوؤں کو ملک کے تنوع پر مرکوز ہونا چاہئے، تنوع کے تمام پہلوؤں کو پالیسی کے دیگر عناصر کے ساتھ ساتھ لیا جائے گا۔

مزید یہ کہ نیشنل سکیورٹی پالیسی کے انسانی تحفظ کے پہلوؤں کی بنیادی توجہ آبادی ہے جو تحفظ صحت، آب و ہوا اور پانی، خوراک کی حفاظت اور صنف کے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک اقتصادی سلامتی کا تعلق ہے، اس پالیسی نے اس پر مناسب بحث کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی دوسری اہم تشویش معیاری انسانی وسائل کی تیاری ہے جو کہ مقامی سطح پر معیشت پر حتمی اثرات مرتب کرے گی، مزید برآں اقتصادی تحفظ کے باب میں بھی بات چیت کی گئی، پالیسی کے دیگر عناصر خودمختاری، علاقائی سالمیت پر روشنی ڈالتے ہیں جو دفاع اور فوجی سلامتی سے متعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل کا عمل 2014 میں دوبارہ شروع ہوا جو 7 سال میں مکمل ہوا کیونکہ اس میں بہت سی حساسیتیں اور پیچیدگیاں تھیں جبکہ اس عمل میں بڑے پیمانے پر گفت و شنید کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تمام وفاقی وزارتوں اور صوبوں کے چار راؤنڈ کئے گئے ہیں جہاں انہوں نے گزشتہ سالوں میں ان پٹ دیا ہے۔ سول ملٹری قیادت اور اداروں نے مل کر کام کیا اور تمام سٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے کے بعد دستاویز کی منظوری دی گئی۔

ڈاکٹر معید یوسف نے نجی شعبے، تعلیمی اداروں اور ماہرین کی عدم شرکت کے حوالے سے تنقید کے بارے میں کہا کہ 2014 سے تعلیمی اداروں، یونیورسٹیوں کے طلباء اور نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے 600 سے زائد پاکستانی ماہرین نے پالیسی بنانے کے لئے اپنا کلیدی ان پٹ فراہم کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک بھرپور مشاورتی عمل تھا جہاں اس دستاویز کے ایک ایک لفظ پر وسیع بحث کی گئی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ قومی سلامتی ڈویژن (این ایس ڈی) پالیسی کے نفاذ اور اس حوالے سے درپیش درپیش مسائل کے بارے میں این ایس سی کو ماہانہ بنیادوں پر آگاہ کرے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ اجتماعی طور پر ایک خفیہ دستاویز ہوگی لیکن اگلے ہفتے یا دس دنوں میں وزیر اعظم کی جانب سے مکمل عوامی ورژن جاری کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی میں قومی سلامتی اور قومی معیشت کے باب شامل ہیں، اس حوالے سےجتنا زیادہ بحث کی جائے گی اتنا ہی بہتر ہوگا۔ انہوں نے پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اپنے تمام ساتھیوں، سول اور مسلح افواج کی قیادت کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے اہم کردار ادا کیا۔

ڈاکٹر معید نےمختلف سوالات کے جواب میں کہا کہ قومی سلامتی پالیسی ایک چھتری ہے جس میں معاشی، انسانی، داخلی، فوجی اور دیگر سیکورٹی خدشات جیسے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پیر کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا اجلاس ہوا جس میں ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دی گئی۔

اجلاس کے دوران پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی 2022-2026 کو قومی سلامتی کے مشیر نے منظوری کے لیے پیش کیا۔ اجلاس میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد، وزیر خزانہ شوکت ترین، وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، تمام سروسز چیفس، قومی سلامتی کے مشیر اور دیگر اعلیٰ سول اور فوجی حکام نے شرکت کی۔