اسلام آباد۔26اپریل (اے پی پی):وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ وفاق اور صوبوں میں بیک وقت انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے۔ ملک ان تماشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ملک اس وقت معاشی بحران سے نکل رہا ہے ہمیں کام کرنے دیا جائے۔ قومی اسمبلی قرارداد اور ضمنی گرانٹ کو مسترد کر کے رقم جاری کرنے کا مطالبہ مسترد کر چکی ہے۔ یہ رقم ہم نہیں دے سکتے یہ ایوان ہماری رہنمائی کرے۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بجٹ 2022-23ء میں الیکشن کے لئے صرف 5ارب روپے کے فنڈز مختص تھے۔ مالی سال 2023-24ء میں الیکشن کے لئے 47.4ارب روپے کا تقاضا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر 63-Aکو ری رائٹ نہ کیا جاتا تو یہ صورتحال سامنے نہ آتی اورقومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ 63-Aکی نئی تشریح پر دنیا حیران ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے وزارت خزانہ سے الیکشن کے لئے فنڈز مانگے گئے۔ ہمارے استفسار پر الیکشن کمیشن نے بتایا کہ 14.4ارب روپے خرچہ آئے گا۔ اگر بیک وقت الیکشن ہوتے ہیں تو کل خرچہ 47.4ارب روپے آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح یہ اخراجات 61.8ارب روپے ہو جاتے ہیں۔ وزارت خزانہ بجٹ میں مختص رقم فراہم کر سکتی مگر بجٹ سے ہٹ کر ضمنی گرانٹ بھی ہوتی ہے۔
وزارت خزانہ مالیاتی نظم و نسق قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ یہ کوشش کرتی ہے کہ ضمنی گرانٹس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ہم رقوم کی ادائیگی کے لئے ہمیشہ آئین اور قانون کو مدنظر رکھتے ہیں۔ ہم نے رقم کے اس مطالبہ کو لازمی اخراجات کے تناظر میں بھی دیکھا ہے۔ ہم نے آئین کے آرکٹیکل 81ای کے تحت بھی اسے دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ بات کہتے ہیںکہ حکومت کا منی بل کس طرح مسترد ہو سکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک رقم جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتا تو وزارت خزانہ یہ ہدایت جاری کرنے کا آئینی و قانونی اختیار رکھتی ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے وزارت خزانہ کو یہ واضح ہدایت کی کہ رقم کے اجراء کے لئے وفاقی کابینہ کے ذریعے معاملہ قومی اسمبلی کے سامنے رکھا جائے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے 21ارب روپے کی ضمنی گرانٹ کی تحریک 64-A اس ایوان میںپیش کی جسے اس ایوان نے مسترد کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہا گیا کہ وفاقی حکومت اسمبلی کا اعتماد کھو چکی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت پر ایوان کا مکمل اعتماد تھا اور ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوان تین مرتبہ اپنا فیصلہ واضح طور پر سنا چکا ہے۔ غلطی تو وہاں پردرست کی جاتی ہے جہاں کہیں ایک دفعہ غلطی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مردم شماری و خانہ شماری پر 35ارب روپے خرچ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاق اور صوبوں میں بیک وقت انتخابات کرانا آئینی تقاضا ہے۔ ملک ان تماشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ملک اس وقت بدترین معاشی بحران سے نکل رہا ہے یہ معاشی بحران پچھلی حکومت کا دیا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری اسٹاک ایکسچینج کی 126ارب تھی جو سابق حکومت کے ڈراموں کی وجہ سے تباہی کا شکار ہو گئی۔ ہم نے معاشی بہتری شروع کی تھی مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیلاب کی صورت میں ناگہانی آفت آ گئی۔ اگر پانچ سال پہلے میری بات مان لی جاتی تو اس وقت ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 24ارب ڈالر ہوتے۔ جن لوگوں نے ملک کو اس حال تک پہنچایا ان کو سامنے لایا جائے۔ ہم معیشت کے لحاظ سے 24ویں نمبر پر تھے اب 47ویں نمبر پر ہیں۔ بھارت کا نمبر5سے 4پر آ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا حیران ہے کہ پاکستان دیوالیہ کیوں نہیں ہوا۔ جب سے شہباز شریف نے اقتدار سنبھالا ہے ایک ادائیگی بھی تاخیر کا شکار نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے دور میں کسی سے پیسے نہیں مانگے، یہ کام تو سابق حکومت نے شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عالمی برادری کے ساتھ عزت و وقار کے ساتھ کھڑا ہونے کی صلاحیت ہے، ہمارا آدھے سے زیادہ وقت ان چارہ جوئیوں میں لگا ہوا ہے۔ ہمیں کام کرنے دیا جائے تا کہ ملک کو مشکلات سے نکال سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ایوان نے قرارداد اور ضمنی گرانٹ کی تحریک کو مسترد کر کے رقم دینے سے حکومت کو منع کیا۔ ہم یہ رقم نہیں دے سکتے یہ ایوان ہماری رہنمائی کرے۔