ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا نفاذ ایک بڑی کامیابی ہے، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم مالیاتی امور میں شفافیت کیلئے سنگ میل ثابت ہو گا، وزیراعظم عمران خان کا ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس نظام کی افتتاحی تقریب سے خطاب

234

اسلام آباد۔23نومبر (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں حکمران اشرافیہ نے ملک میں ٹیکس کلچر کو پروان نہیں چڑھنے دیا، سابق حکمرانوں نے 10 سال میں ملک پر قرضہ 6 ہزار ارب روپے سے 30 ہزار ارب روپے تک پہنچا دیا، ملک پر قرضے چڑھانے والوں کو سزائیں ملنی چاہئیں، ٹیکس وصولی میں اضافہ حکومت کیلئے ایک چیلنج ہے، سابق حکمران بیرونی دوروں پر عوام پیسہ بے دریغ خرچ کرتے رہے، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم مالیاتی امور میں شفافیت کیلئے سنگ میل ثابت ہو گا، ٹیکس جمع کرنے والوں اور ٹیکس دہندگان میں فاصلے دور کرنے اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹیکس وصولی بڑھے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو یہاں ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس نظام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ 2008ء سے ملک میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے نفاذ کی کوشش کی جا رہی تھی، مشیر خزانہ شوکت ترین اور ایف بی آر کی ٹیم نئے سسٹم کے اجراء پر مبارکباد کی مستحق ہے کیونکہ مجھے یہ شک پڑنا شروع ہو گیا تھا کہ شاید یہ ہمارے پانچ سال میں مکمل نہ ہو، 2021ء میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا نفاذ ایک بڑی کامیابی ہے، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم مالیاتی امور میں شفافیت کیلئے سنگ میل ثابت ہو گا، اس سے پہلے ٹوبیکو انڈسٹری میں یہ سسٹم نافذ کیا گیا تھا اب شوگر انڈسٹری، پھر سیمنٹ، کھاد اور سٹیل انڈسٹری میں بھی یہ نافذ ہو گا، یہ ایک بہت مثبت پیشرفت ہے اور اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ملک کو چلانے کیلئے پیسہ نہیں ہے اور اسی وجہ سے ہمیں قرضے لینا پڑتے ہیں، اگر آپ کے خرچے زیادہ اور آمدن کم ہو تو مسائل پیدا ہوتے ہیں، دنیا میں لوگ فراخدلی سے ٹیکس دیتے ہیں لیکن پاکستان میں ٹیکس کلچر پروان ہی نہیں چڑھ سکا، ٹیکس چوری کو غلط نہیں سمجھا جاتا رہا، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں نوآبادیاتی نظام رہا تو لوگ ٹیکس دینے سے گریز کرتے تھے، لوگوں کو جب یہ یقین ہو کہ ان کا دیا ہوا ٹیکس انہی پر خرچ ہو گا تو ان کا نقطہ نظر کچھ اور طرح کا ہوتا ہے۔

آزادی کے بعد ہماری حکمران اشرافیہ نے ملک میں ٹیکس کلچر کو پروان نہیں چڑھنے دیا، ان کا شاہانہ طرز زندگی تھا اور لوگوں کے ٹیکس کے پیسے وہ اپنے اوپر خرچ کرتے تھے اور لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ انہیں عوام کا کوئی احساس نہیں ہے اسی لئے ٹیکس کلچر فروغ نہیں پایا، ترقی یافتہ ملکوں میں ٹیکس چوری کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

وزیراعظم نے کہا کہ انگلینڈ کی جی ڈی پی پاکستان سے 50 گنا زیادہ ہے، ان کے وزراء کا طرز زندگی دیکھنے کی ضرورت ہے اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ عوام کے ٹیکس کے پیسے استعمال کر رہے ہیں، ان کے وزیراعظم نے دورہ امریکہ کے دوران امریکہ میں اپنے سفارتخانہ کے ایک کمرے میں قیام کیا تاکہ زیادہ اخراجات نہ آئیں، پاکستان جیسے مقروض ملک کے وزراء اعظم نے ماضی میں غیر ملکی دوروں پر 10، 10 گنا خرچے کئے جبکہ میرے غیر ملکی دوروں پر اخراجات ان سے بہت کم رہے ہیں، جب حکمرانوں کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ لوگوں کے ٹیکس کے پیسے خرچ کر رہے ہیں تو پھر لوگ بھی ٹیکس نہیں دیتے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، ملکی استحکام کا دارومدار اسی پر ہے اور اس کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، 2008ء سے 2018ء کے دوران پاکستان کا چار گنا زیادہ قرضہ بڑھا، ملک پر قرضے چڑھانے والوں کو سزائیں ملنی چاہئیں اور 10 سال میں 6 ہزار ارب روپے سے ملک کا قرضہ 30 ہزار ارب روپے تک پہنچا دیا گیا، کوئی بڑا منصوبہ، کوئی ڈیم اور بنیادی ڈھانچہ کا کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا گیا جس سے ملک کی آمدنی میں اضافہ ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس وصولی میں اضافہ حکومت کیلئے ایک چیلنج ہے، ریکارڈ ٹیکس وصولی پر ایف بی آر کی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ٹیکس وصولی 6 ہزار ارب روپے تک پہنچائیں گے، 6 ہزار ارب روپے میں سے 3 ہزار ارب روپے تو سابق حکمرانوں کے لئے گئے قرضوں کی ادائیگی پر چلے جائیں گے اور 3 ہزار ارب روپے 22 کروڑ عوام کیلئے بچیں گے ان میں سے ہم نے لوگوں کیلئے ہسپتال اور تعلیمی ادارے بھی بنانے ہیں اور اس کے علاوہ تحقیقی سرگرمیوں پر بھی ہم نے رقم خرچ کرنی ہے۔

زراعت کے شعبہ میں بہت زیادہ تحقیقی گنجائش ہے، اس میں بھی سرمایہ کاری کرنا ہو گی لیکن ان تمام کاموں کیلئے بہت کم پیسہ بچتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں قرضے لینا پڑتے ہیں اور پھر ان قرضوں پر سود بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سسٹم تبھی ٹھیک ہو گا جب ہم ٹیکس وصولی کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کریں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ٹیکس جمع کرنے والوں اور ٹیکس دہندگان میں فاصلے دور کرنے اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹیکس وصولی بڑھے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ آٹومیشن سے ٹیکس جمع کرنے میں سہولت ہو گی، ایف بی آر جس طرح ٹیکس جمع کر رہا ہے میں نے 8 ٹریلین ٹیکس جمع کرنے کی بات کی تھی، امید ہے کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے اس تک ہم پہنچ جائیں گے، ایف بی آر کا ٹیکس وصولی میں بہت اہم کردار ہے، ایک طرح سے ٹیکس وصولی ہمارا قومی سلامتی کا معاملہ بن چکا ہے کیونکہ ہمیں اپنے بچوں کیلئے مالی وسائل کی ضرورت ہے، 60 سے 65 فیصد ہماری آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے، جب ٹیکس جمع ہو گا تو پھر ان نوجوانوں پر ہم خرچ کر سکیں گے، یہی نوجوان پھر ترقی کا زینہ بنیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ جیسے جیسے لوگوں کو یہ ہم یقین دلاتے جائیں گے کہ ان کا پیسہ انہی پر خرچ ہو گا اور شاہانہ اخراجات نہیں ہوں گے، کفایت شعاری کے اقدامات کئے جا رہے ہیں، مہنگائی کے باوجود وزیراعظم آفس کے اخراجات میں 110 کروڑ روپے کی کمی کی گئی ہے، لوگوں کا اعتماد بڑھے گا تو ہمارے لئے ٹیکس جمع کرنا بھی آسان ہو جائے گا اور صنعتی شعبہ کو بھی ٹیکس دینے میں مشکل نہیں ہو گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ کہ پاکستان دنیا کے ان پانچ ملکوں میں شامل ہے جو سب زیادہ عطیات دیتے ہیں، شوکت خانم ہسپتال کیلئے لوگوں نے دل کھول کر عطیات دیئے ہیں، اگر ہم لوگوں کو ٹیکس دینے کیلئے قائل کریں اور انہیں بتائیں کہ ملک، عوام اور بچوں کی خوشحالی پر یہ پیسہ خرچ ہو گا تو وہ یقیناً ٹیکس دیں گے، ایف بی آر بھی لوگوں کو یہ یقین دلائے کہ جمع ہونے والا ٹیکس انہی پر خرچ کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹیکس وصولی میں اضافہ کی نگرانی کرتے رہیں گے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹیکس وصولی شفاف بنانے میں مدد ملے گی، معاشی استحکام کیلئے ریونیو میں اضافہ ضروری ہے، صرف 2 ملین لوگ ٹیکس دیتے ہیں، 15 ملین قابل ٹیکس افراد کا ڈیٹا اکٹھا کر لیا ہے، ریٹیل کے شعبہ میں سالانہ 18 ٹریلین کی سیل ہوتی ہے لیکن صرف ساڑھے 3 ٹریلین روپے اکٹھے ہوتے ہیں، ٹیکنالوجی کے ذریعے یہ مسئلہ بھی حل کریں گے، چھوٹے تاجر فکر نہ کریں ان کیلئے فکسڈ ٹیکس ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ٹیکنالوجی کے لحاظ سے اگلے سال 30 بڑے اور 2024ء تک 10 بڑے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔