23.8 C
Islamabad
منگل, مئی 6, 2025
ہومقومی خبریںٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس 2025 کا مقصد ٹیکس کے نظام میں موجود...

ٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس 2025 کا مقصد ٹیکس کے نظام میں موجود قانونی، انتظامی اور نفاذ کے خلا کو پُر کرنا ہے،وزارت خزانہ

- Advertisement -

اسلام آباد۔5مئی (اے پی پی):ٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس 2025 کا مقصد ٹیکس کے نظام میں موجود فوری قانونی، انتظامی اور نفاذ کے خلا کو پُر کرنا ہے۔وزارت خزانہ کی طرف سے جاری پریس ریلیز کے مطابق صدر مملکت کی طرف سے 2 مئی کو جاری کردہ ٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس 2025 کے تحت ٹیکس نظام میں صرف تین ترامیم کی گئی ہیں۔پہلی ترمیم کا تعلق ٹیکس قوانین کی اُن دفعات سے ہے جن کے تحت ٹیکس کی وصولی کے احکامات پر عمل درآمد مؤخر کیا جا سکتا ہے خاص طور پر جب معاملہ عدالت میں زیر التوا ہو یا حکمِ امتناعی دیا گیا ہو۔ یہ ترمیم دفعہ 138(3A) اور 140(6A) میں کی گئی ہے۔

ماضی میں ایسا ہوتا تھا کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ سے واضح فیصلہ آنے کے باوجود بھی ٹیکس دہندگان کو قانون کے تحت 30 دن کی مہلت مل جاتی تھی جس کی وجہ سے حکومت کے اربوں روپے کے تصدیق شدہ ریونیو کی وصولی میں تاخیر ہو رہی تھی۔حالیہ آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں خصوصی بنچ قائم کئے گئے ہیں تاکہ ایسے مقدمات کا جلد فیصلہ ہو سکے اور ان کی نگرانی خود معزز چیف جسٹس آف پاکستان کر رہے ہیں۔یہ ترمیم مندرجہ بالا تاخیر کو ختم کرنے کے لیے کی گئی ہے تاکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے حتمی فیصلوں پر فوراً عمل ہو سکے۔

- Advertisement -

یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ یہ ترمیم صرف انہی فیصلوں پر لاگو ہو گی جو سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کی سطح پر ہو چکے ہوں۔ یہ قانون کمیشنر، کمشنر اپیلز یا ان لینڈ ریونیو اپیلٹ ٹریبونلز جیسے ماتحت اداروں کے فیصلوں پر لاگو نہیں ہو گا۔ مزید یہ کہ اگر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کی جانب سے حکمِ امتناعی دیا گیا ہو تو یہ ترمیم اس کو ختم نہیں کرتی بلکہ اس کے احترام کو یقینی بناتی ہے۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ جب عدالت کا حتمی فیصلہ آ جائے اور کوئی حکمِ امتناعی باقی نہ ہو تو ٹیکس کی ادائیگی میں تاخیر نہ کی جا سکے۔

دوسری ترمیم کا تعلق اُن کاروباروں سے ہے جو مہنگی خدمات فراہم کرتے ہیں اور موجودہ سیلز ٹیکس نظام کے دائرے سے باہر ہیں ۔اس میں دفعہ 175Cشامل کی گئی ہے، جس کے تحت ایف بی آر کو کچھ منتخب کاروباری مقامات پر اپنے افسران تعینات کرنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ آمدنی کا مؤثر طور پر جائزہ لیا جا سکے۔

اگرچہ اس ترمیم پر بعض خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اسے غلط طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس کا اطلاق عام تاجروں پر نہیں ہوتا کیونکہ وہ پہلے ہی سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی دفعہ 40Bکے تحت ریگولیٹ کئے جا رہے ہیں۔ اس ترمیم کا مقصد خاص طور پر اُن کاروباروں پر نگرانی رکھنا ہے جو بڑی آمدنی یا ٹرن اوور کے حامل ہیں لیکن ان پر مؤثر نگرانی موجود نہیں،

جیسے کہ لگژری سروسز، اعلیٰ درجے کے ہوٹل اور ریستوران، ایونٹ مینجمنٹ کمپنیاں اور بڑی سطح پر کام کرنے والے ہیچری کے کاروبار۔یہ قدم اس لیے اُٹھایا گیا ہے تاکہ ٹیکس کا بوجھ صرف تنخواہ دار طبقے یا مینوفیکچرنگ سیکٹر پر نہ پڑے بلکہ دیگر بڑے شعبے بھی اپنی ذمہ داری پوری کریں۔اس ترمیم کے تحت افسران کی تعیناتی مکمل شفافیت کے ساتھ ہوگی اور یہ اقدامات واضح طریقۂ کار (SOPs) کے تحت ہوں گے، جن میں دوسرے اداروں کی شراکت بھی شامل ہو گی تاکہ کوئی افسر اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کر سکے اور نہ ہی کسی کو ہراساں کیا جا سکے۔

تیسری ترمیم کا تعلق ان دوروں سے ہے جو ایف بی آر کے افسران نجی شعبے کی اُن صنعتوں یا کاروباری مقامات پر کرتے ہیں جو ٹیکس کے دائرے میں آتے ہیں۔ یہ دورے سخت ضابطوں اور ہدایات (STGOs) کے مطابق کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی دورے سے پہلے بار کوڈ والا اجازت نامہ جاری کیا جاتا ہے۔

افسران پر لازم ہے کہ وہ اپنی کارروائی موبائل ڈیوائس پر ریکارڈ کریں تاکہ شفافیت برقرار رہے۔ افسران کو ایک معیاری فارم مہیا کیا جاتا ہے جسے وہ دورے کے دوران مکمل کرتے ہیں اور اسے موبائل ایپ کے ذریعے آن لائن اور کاغذی شکل میں اپنے چیف کمشنر یا ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کو جمع کرواتے ہیں۔

ان افسران کے رویے اور کام کی نگرانی سول انٹیلیجنس ادارے کرتے ہیں اور اگر کسی کاروبار یا انٹیلیجنس ادارے کی طرف سے شکایت آتی ہے تو فوری طور پر تحقیقات کی جاتی ہیں اور کارروائی کی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ ہر ہفتے ایف بی آر کی تمام نگرانی کی سرگرمیوں کی تفصیلی رپورٹ وزیرِ اعظم کو پیش کی جاتی ہے تاکہ اعلیٰ سطح پر مسلسل نگرانی کی جا سکے۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=592931

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں