ٹیکس محتسب سے رجوع کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ادارے پرعوام کے اعتماد کا مظہر ہے، وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ

146

اسلام آباد۔27ستمبر (اے پی پی):وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کہا ہے کہ ٹیکس محتسب سے رجوع کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس سے ادارے پرعوام کے اعتماد کی عکاسی ہوتی ہے،11ماہ میں ٹیکس سے متعلق 4 ہزار 600 کیسز میں سے 4ہزار کیسز کا فیصلہ کیا ،شکایت کنندگان کو وکیل کی ضرورت نہیں،خود اپنا مقدمہ ٹیکس محتسب کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔”اے پی پی” سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کہا کہ ٹیکس محتسب کا ادارہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کیلئے قائم کیا گیا ہے ،یہ ادارہ ٹیکس ادا کرنےوالوں کے لئے آسانیاں اور انہیں تنگ کرنے والوں کا محاسبہ کرتا ہے، جب سے میں نے عہدہ سنبھالا ہے گزشتہ 11ماہ کے دوران میرے پاس ٹیکس سے متعلقہ 4 ہزار 600 کیس رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے 4ہزار کیسز کا میں نے فیصلہ کیا ہے جس کی گزشتہ 22سال میں مثال نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس محتسب کی تاریخ میں کیسز کی تعداد کبھی 3ہزار سے زائد نہیں ہوئی لیکن اس مرتبہ ایک سال میں4ہزار600 کیس سامنے آئے جو ادارے پر عوام کے اعتماد کی عکاسی کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ٹیلی فون کالز پربھی مسائل حل کئے ہیں۔ اگر کسی کا کنٹینر پھنسا ہو تو وہ مجھے براہ راست فون کال ، پیغام کے ذریعے شکایت درج کراسکتا ہے ، میں نے موقع پر مسائل حل کئے ہیں ۔ اب کسی شکایت کنندہ کو میرے پاس اپنے ہمراہ وکیل لانے کی بھی ضرورت نہیں ہے ، شکایت کنندہ خود اپنی بات کرسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلی مرتبہ ایک ایسے شخص کو ٹیکس محتسب لگایا جس کا ٹیکس کا پس منظر ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میں نے 29سال محکمہ کسٹمز میں ملازمت کی ہے لہذا میں تمام مسائل سے بخوبی واقف ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ جب میں عہدہ کا حلف لیا تو میں نے صدر مملکت کو یقین دلایا کہ میرے عہدہ سنبھالنے کے بعد اس ادارہ پر لوگوں کا اعتماد بحال ہوگا اور اب جن چار ہزار کیسز کا میں نے فیصلہ کیا ہے تو یہ ان لوگوں کو ریلیف فراہم کیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ریڈیو پاکستان کے ایک ورکر نے شکایت کی کہ اس کی تنخواہ 30ہزار روپے ہے اور اس میں سے 20فیصد ٹیکس کٹوتی کر لی جاتی ہے ۔

جس شخص کی 30ہزار روپے تنخواہ ہو اور اس میں سے 4ہزار روپے ٹیکس کٹوتی کر لی جائے تو اس کیلئے بہت زیادہ مسائل ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ریڈیو ملازم کی شکایت پر ہم نے تمام قوانین کا جائزہ لیا ، انکم ٹیکس آرڈیننس کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ غلط ٹیکس کٹوتی کی جارہی ہے کیونکہ سالا نہ 6لاکھ تک آمدنی ٹیکس سلیب میں نہیں آتی ،میں نے اس کا فیصلہ کر کے سب سے پہلے اپنے دفتر میں اسے نافذ کیا اور اس کے بعد اس فیصلہ کو میں نے اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان کو بھیجا اور اس سے لاکھوں ملازمین کو فائدہ پہنچا ،انہوں نے اس پر عملدرآمد کرایا ۔

گاڑیوں پر ٹیکس کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ میرے سامنے آیا کہ جب گاڑیوں کی بکنگ کی گئی اس وقت 12فیصد ٹیکس تھا اور جب گاڑیوں کو ڈیلیور کیا گیا تو اس وقت ٹیکس شرح 17فیصد کر دی گئی اس پر میں نے فیصلہ دیا کہ 5فیصد ٹیکس ناجائز لیا گیا ہے وہ واپس کریں ، وہ ٹیکس میں نے واپس کرایا اس سے دس ہزار صارفین کو فائدہ ہوا۔ اب ایف بی آر سے انہیں چیک ملنا شروع ہوگئے ہیں ۔