پارلیمان طاقت کا مرکز اور آئین کا مصنف ادارہ ہے،عوام کی مرضی پارلیمان سے جنم لیتی ہے ،سپیکرقومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا عالمی کنونشن سے خطاب

171
پارلیمان طاقت کا مرکز اور آئین کا مصنف ادارہ ہے،عوام کی مرضی پارلیمان سے جنم لیتی ہے ،سپیکرقومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا عالمی کنونشن سے خطاب

اسلام آباد۔10مئی (اے پی پی): سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہےکہ پارلیمان طاقت کا مرکز،آئین کا مصنف اورواحد قانون ساز ادارہ ہے،عوام کی مرضی پارلیمان سے جنم لیتی ہے اور تمام اداروں کو عوام کے اس خود مختار اور اعلیٰ ادارے کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے،یہی ہمارے آئین کی روح ہے اور یہ ایک ہمہ گیر، باہمی احترام، متنوع اور مکالمے پر مبنی پاکستان کا واحد راستہ ہے۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کی مناسبت سے منعقدہ دو روزہ عالمی کنونشن کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سپیکر نے مندوبین اور مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔تقریب میں 17 سے زیادہ ممالک کے مندوبین شریک ہوئے۔غیر ملکی شرکا میں مختلف ممالک کے سپیکرز ،ڈپٹی سپیکرز،بین الاقوامی قانونی ماہرین اور مختلف شعبہ ہائےزندگی کے نمائندے شامل ہیں۔سپیکر نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ سب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آ ئین کی گولڈن جوبلی کی تقریب میں شریک ہیں، آپ سب کی یہاں موجودگی اس بات کی عکاس ہے کہ آپ آئین و قانون کی پاسداری، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور عوام کےمنتخب نمائندوں کے ذریعے اختیارات کی منتقلی پر یقین رکھتے ہیں۔

سپیکر قومی اسمبلی نے وزیر اعظم پاکستان کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے وزیر اعظم شہباز شریف کا خصوصی طور پر شکر گزار ہوں کہ انہوں نے آئین کے 50 سال کے عنوان سے ایک ماہ تک جاری رہنے والی تقریبات میں ذاتی دلچسپی لیاور ان کی مسلسل حمایت کی،یہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر وزیر اعظم کے غیرمتزلزل یقین کا اظہار ہے اور ان کی انتھک کوششوں کو سراہنے میں پورا ایوان مجھ سے متفق ہے۔سپیکر نے کہا کہ میں اپنی پارٹی اور اس کی قیادت خاص طور سے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کا یکساں طور پر شکر گزار ہوں، جنہوں نے آئین کے تحفظ اور دفاع کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم کا اظہار کیا،اس سمت میں آپ کا ہر قدم 1973 کے آئین کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو کی اس مقدس دستاویز کو برقرار رکھنے کے لئے دی گئی قربانیوں کی بازگشت ہے۔

سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ میں مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام،خالد مقبول صدیقی اور متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین جناب خالد مگسی اور بلوچستان کی قابل اور دور اندیش قیادت کا بھی ذاتی طور پر شکر گزار ہوں۔

سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ 75 سال قبل جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں متحد ہوکر ایک وطن بنانے کے لیے عوام کی آزادانہ خواہش کا اظہار کیا،قائد اعظم نے 1928 میں اپنے مشہور 14 نکات کے ذریعے ہمیں وفاقیت اور صوبائی خودمختاری کا احترام کرنے کا درس دیا۔سپیکرنے کہا کہ پاکستان کے بارے میں قائد کا وژن وہ جمہوریت تھا جس کی بنیاد مساوات اور انصاف کے اسلامی اصولوں پر ہواور قائد اعظم نے اس کا اعلان 10 اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں کیا۔ پارلیمان ریاست کا خودمختار اور سپریم ادارہ ہے۔

سپیکر نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ عظیم قائد کا وژن ذاتی اور چھوٹے مفادات کی نذر ہو گیا جہاں جمہوریت چند مراعات یافتہ طبقے کے کلب میں چلی گئی اور عوام کی مرضی ایک ڈکٹیٹر کی خواہشوں کی یرغمال بن گئی۔ سپیکر نے کہا کہ 1956 اور 1962 کے دو سابقہ آئینوں کی ناکامی اور بالآخر 1971 کے سانحے بعد بھی ایک جمہوری، وفاقی پارلیمانی ریاست کے لیے پاکستانی عوام کی فطری خواہش پھر سے جاگ اٹھی،وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی متحرک قیادت میں راکھ سے اٹھے اور دو سال سے بھی کم عرصے میں پہلی مرتبہ متفقہ آئین حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ہماری قومی قیادت نے متفقہ طور پر ایک ایسا آئین تحریر کیا جو کسی فرد کی ڈکٹیشن نہیں بلکہ ایک متحدہ وفاق کا مشترکہ عزم تھا۔سپیکرنے کہا کہ 10 اپریل 1973 ہماری قوم کے ایک آمرانہ’’میں‘‘ سے ایک جمہوری ’’ہم عوام‘‘ تک کے سفر کی انتہا ہے،اس لیے 14 اگست 1947 کے بعد 10 اپریل 1973 ہماری قومی تاریخ کا سب سے روشن، چمکدار اور تاریخی لمحہ ہے۔

سپیکر نے کہا کہ 10 اپریل 1973 سے 2010 تک اور اب 2023 تک ہم نے ایک طویل سفر طے کیا ہے اور ابھی تک ایک حقیقی اسلامی جمہوری وفاقی پاکستان کے لیے ہمارا سفر ختم نہیں ہوا۔ بنیادی حقوق کی ضمانت، جیسا کہ آئین نے وعدہ کیا ہے، آج بھی روشنی کی تلاش میں ہے۔ سپیکرنےکہا کہ آئین کے آرٹیکل 3 کا عہد، جو ریاست کو ہر قسم کے استحصال کے بتدریج خاتمے کے لیے ’’ہر ایک کو اپنی صلاحیت کے مطابق اپنے کام کے مطابق‘‘ کے عالمی اصول کا پابند کرتا ہے،بڑی حد تک پورا نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ آئین کےآرٹیکل 25 کو مکمل طور پر پورا کرنے کی یقین دہانی اور 25 ۔اےکی ضمانت کہ ہر بچے کو لازمی تعلیم کی یقین دہانی ہمارے بامعنی اقدامات کا انتظار کر رہی ہے،اگر جمہوری قیادتوں کو محلاتی سازشوں اور آدھی رات کے حملوں کا یرغمال بنایا جائے تو یہ فاصلہ مزید بڑھتا رہے گا۔سپیکر نے کہا کہ یہ معزز ایوان طاقت کا مرکز ہے،پارلیمنٹ آئین کا مصنف ادارہ ہے،یہ واحد قانون ساز ادارہ ہے،عوام کی مرضی پارلیمان سے جنم لیتی ہے اور تمام اداروں کو عوام کے اس خود مختار اور اعلیٰ ادارے کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے،یہی ہمارے آئین کی روح ہے اور یہ ایک ہمہ گیر، باہمی احترام، متنوع اور مکالمے پر مبنی پاکستان کا واحد راستہ ہے۔