پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا اجلاس، نیلم جہلم سرچارج کی وصولی بند کرنے کی ہدایت

72

اسلام آباد ۔ 2 ستمبر (اے پی پی) پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے نیلم جہلم منصوبہ مکمل ہونے کے باوجود اب تک سرچارج کی وصولی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس سرچارج کی وصولی بند کرنے کی ہدایت کی ہے، اگر وفاقی وزارتیں اور ڈویژن باقاعدگی سے ماہانہ بنیادوں پر اجلاس منعقد کریں تو پی اے سی کا کام آسان ہو جائے گا، ڈی اے سی منعقد نہ کرنے والی52 وزاتوں اور ڈویژنوں کو مختلف گروپوں میں پی اے سی میں طلب کیا جائے گا۔ اجلاس بدھ کوپی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاو¿س میں ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان راجہ ریاض احمد، شاہدہ اختر علی، مشاہد حسین سید، سرداریار صادق، سید حسین طارق محمد، علی خان، شیخ روحیل اصغر، حنا ربانی کھر، ریاض فتیانہ، خواجہ شیراز محمود، منزہ حسن ، راجہ پرویز اشرف، ملک عامر ڈوگر اور شیری رحمٰن سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزارت آبی وسائل کی 2012-13ءکی رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین نے کہا کہ پی اے سی نے فیصلہ کیا تھا کہ ریگولیٹری اتھارٹیز کابینہ ڈویژن کے تحت کام کرتی ہیںاس لیے ان کا آڈٹ کرانا کابینہ ڈویژن کی ذمہ داری ہے۔ سیکرٹری کابینہ ڈویژن محمد نواز سکھیرا نے کہا کہ کابینہ ڈویژن اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرے گا۔ پی اے سی نے ہدایت کی ریگولیٹری اتھارٹیوں کا آڈٹ کرانے کے حوالے سے آڈیٹر جنرل کے ساتھ مل کر لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ محکمانہ آڈٹ کمیٹیوں کے حوالے سے ہدایت کی گئی ہے کہ ان کے باقاعدگی اجلاس منعقد کرنا قانونی طور پرلازم ہے۔ وزیر اعظم نے بھی ہدایت کی ہے کہ پی اے سی کے اجلاس ماہانہ بنیادوں پر کرائے جائیں۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اعجاز نوید نے کہا کہ تمام وزارتوں کے پرنسپل اکاﺅنٹنگ افسران سے کہا ہے کہ وہ آڈیٹر جنرل کے ساتھ بیٹھ کر اپنی اپنی وزارتوں کے ڈی اے سی کے اجلاسوں کا انعقاد کا شیڈول بنائیں، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اس کی مانیٹرنگ کرے گا اور اس کی سہ ماہی رپورٹ پی اے سی کو دیں گے۔ حنا ربانی کھر نے کہا کہ پی اے سی کو جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اس کے مطابق کئی وزاروں میں ڈی اے سی کے باقاعدگی سے اجلاس منعقد نہیں کئے گئے۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ پی اے سی کے سامنے بیس بیس سالہ پرانے آڈٹ اعتراضات ہیں، ہم اب بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے تھے، اس کا کوئی آﺅٹ آف باکس حل نکلنا چاہیے۔ شاہدہ اختر علی نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد جو وزارتیں صوبوں کو منتقل ہو گئی ہیں ان کا ریکارڈ پی اے سی کو فراہم نہیں کیا جاتا، سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ (منزہ حسن نے کہا کہ وزارت مواصلات نے 12 میں سے 11 ڈی اے سی اجلاس کئے ہیں) جو قابل ستائش ہے، باقی وزارتوں نے اس کی ضرورت محسوس کیوں نہیں کی۔ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ تمام وزارتوں کو سہ ماہی بنیادوں پر ڈی اے سی کا شیڈول مرتب کرنے کا کہا گیا ہے، پی اے سی کے 1349 ہدایات میں سے صرف 548 پر عملدرآمد کیا گیا ہے، اس طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے کہا کہ ہماری وزارت میں گزشتہ ایک سال میں 29 ڈی اے سی کے اجلاس ہوئے ہیں ، وزارتوں میں یہ اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہوں تو گورننس میں بہتری آئے گی۔ تمام ڈی اے سیز کے اجلاسوں کے منٹس پی اے سی میں پیش ہونے چاہئیں۔ پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے کہا کہ ڈی اے سی نہ کرانے والی 52 وزارتوں کو مختلف گروپوں میں پی اے سی میں طلب کیا جائے گا۔ سیکرٹری اسٹیبلشمٹ کو پی اے سی نے ہدایت کی کہ وزارتوں کی ڈی ا ے سی کے انعقاد کے حوالے سے باقاعدگی سے مانیٹرنگ کی جائے گی۔ چیئرمین واپڈا جنرل مزمل نے کہا کہ واپڈا کے 2012-13ءکے پرانے کیسز پی اے سی کے سامنے ہیں، ضرورت اس بات کی کہ آڈیٹر جنرل کو ہدایت کی جائے کہ 50 فیصد آڈٹ اعتراضات موجودہ بھی ہونے چاہئیں۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ذیلی کمیٹیاں زیر التوا آڈٹ اعتراضات جلد از جلد نمٹانے کی کوشش کریں۔ حنا ربانی کھر کی تجویز پر پی اے سی نے فیصلہ کیا کہ زیرالتوا آڈٹ اعتراضات نمٹانے کے حوالے سے انٹرنل اجلاس میں فیصلے کرنے ہوں گے۔ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ 2018-19ءمالی سال کی 28 فروری کو رپورٹ صدر مملکت کو ارسال کی تھی، ایوان صدر سے ہمیں بتایا گیا کہ انہوںنے رپورٹ اسمبلی سیکرٹریٹ کو بھجوا دی ہے۔ ملک عامر ڈوگر نے کہا کہ قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں یہ رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دی جائے گی۔ سیکرٹری آبی وسائل محمد اشرف نے کہا کہ ہماری وزارت میں باقاعدگی سے ڈی اے سی کے اجلاس ہو تے ہیں، پی اے سی نے اس پر ان کی کارکردگی کو سراہا۔ نیلم جہلم سرچارج کی عدم ریکوری کے حوالے سے ایک آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیتے ہوئے سیکرٹری آبی وسائل نے کہا کہ نیلم جہلم منصوبہ مکمل ہوچکا ہے ۔راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ اس ماہ کے بل میں بھی یہ سرچارج لگ رہا ہے۔ سیکرٹری آبی وسائل نے کہا کہ یہ تجویز ہے کہ نیلم جہلم کی جگہ دیامر بھاشا ڈیم سرچارج کے نام سے لیاجائے، ابھی یہ تجویز منظور نہیں ہوئی۔ ارکان کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کے جواب میں چیئرمین واپڈا نے کہا کہ 2008ءکے نیلم جیلم سرچارج کی مد میں 70 ارب روپے اکٹھے ہوئے، ہم اس تجویز سے اتفاق نہیں کرتے کہ صارفین سے ڈیموں کی تعمیر کے لئے رقم وصول کی جائے۔ نیلم جہلم منصوبہ نبیادی طور پر 84 ارب کا تھا مگر اس پر بعد ڈیزائن پر نظرثانی کے بعد 474 ارب میں مکمل ہوا ۔ گزشتہ دو سالوں میں 10 ارب یونٹس سے زائد بجلی پیدا ہوئی، سابق چیف جسٹس کے فنڈ میں 13 ارب روپے جمع ہوئے یہ رقم حکومت اور سپریم کورٹ کی نگرانی میںمحفوظ ہے۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ نیلم جہلم منصوبہ مکمل ہونے پر یہ سرچارج ختم کیاجائے۔ سیکرٹری آبی وسائل نے کہا کہ سیکرٹری پاور کو پی اے سی کی ہدایت سے آگاہ کر دیاجائے گا۔ آڈٹ حکام نے کہاکہ 2008ءسے 2015ءتک کے سرچارج حاصل کرنے کا نوٹیفکیشن تھا اس کے بعد یہ غیر قانونی ہے۔