10.5 C
Islamabad
منگل, مارچ 4, 2025
ہومقومی خبریںپالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام ’’جنوبی ایشیا کا ماحولیاتی...

پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام ’’جنوبی ایشیا کا ماحولیاتی مستقبل‘‘ کے موضوع پر اعلی سطحی مکالمہ

- Advertisement -

اسلام آباد۔3مارچ (اے پی پی):ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی کے لئے مربوط پالیسی سازی، علاقائی تعاون اور اقتصادی ترقی کو ماحولیاتی استحکام سے ہم آہنگ کرنے کی حکمت عملی اپنانا ضرری ہے۔ماہرین نے ان خیالات کا اظہار پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام جنوبی ایشیا کا ماحولیاتی مستقبل کے موضوع پر ایک اعلی سطح کے مکالمے میں کیا گیا۔اقوامِ متحدہ کے اقتصادی و سماجی کمیشن برائے ایشیا و بحرالکاہل (یو این ای ایس سی اے پی) کے توانائی ڈویژن کے سیکشن چیف مائیکل ولیم سن نے ماحولیاتی اہداف کے حصول کے لئے پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں، توانائی کے موثر انتظام اور شمسی توانائی، برقی گاڑیوں اور برقی پبلک ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری کو فوری طور پر اپنانے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ یو این ای ایس سی اے پی کا این ڈی سی شراکت پروگرام ممالک کو NDCs 3.0 کی تیاری میں معاونت فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2022 کے تباہ کن سیلابوں کے باعث پاکستان کو 40 ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مخصوص ملکی حالات کے مطابق ماحولیاتی حل اپنانے کی ضرورت ہے۔ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ این ڈی سیز پر عملدرآمد میں عالمی شمال اور جنوب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی ترقی کے لئے شفاف حکمت عملی، مقدار پر مبنی اہداف اور واضح راہ متعین کی جانی چاہئے۔

- Advertisement -

انڈونیشیا کے انسٹی ٹیوٹ فار ایسینشل سروسز ریفارم (آئی ای ایس آر) کی ماحولیاتی پالیسی کوآرڈینیٹر دیلیما نور رمادھانی نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں منتقلی کے لئے سول سوسائٹی اور مقامی سطح پر کام کرنے والی تنظیموں کا کردار اجاگر کیا جانا چاہئے۔ ووڈ میکینزی (برازیل) کی سینئر ریسرچ اینالسٹ مارینا ایزویدو نے کہا کہ برازیل میں سماجی شمولیت ماحولیاتی پالیسیوں کا حصہ ہے لیکن اس کا عملی نفاذ ہی حقیقی تبدیلی لا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑے پیمانے پر ہدف مقرر کرنے کے باوجو، عملی منصوبے کے بغیر یہ اقدامات ناکافی ثابت ہو سکتے ہیں۔

ایس ڈ ی پی آئی کی صالحہ قریشی نے کہا کہ جنوبی ایشیا کی صنعتیں انٹرنیشنل ٹرانسفرڈ مٹیگیشن آئوٹ کمز (آئی ٹی ایم اوز) کے ذریعے کاربن کمی کے عالمی منڈی سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ایس ڈی پی آئی کی زینب نعیم نے کہا کہ اگرچہ NDCs 2.0 کافی بلند عزائم کے حامل تھے، لیکن ان کا انحصار بین الاقوامی مالی معاونت پر رہا، جس کی وجہ سے پیش رفت سست روی کا شکار ہوئی۔

مقررین نے اتفاق کیا کہ اگر اقتصادی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہ کیا گیا تو نہ صرف ماحولیاتی بحران سنگین تر ہو جائے گا بلکہ ترقیاتی اہداف بھی متاثر ہوں گے۔ اس مقصد کے لئے علاقائی سطح پر مربوط پالیسی سازی، مالیاتی شفافیت، اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا ناگزیر ہے۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=568221

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں