فیصل آباد۔ 26 اپریل (اے پی پی):جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر پانی کی کمی کے مسائل سنگین ہوتے جا رہے ہیں جس کیلئے ہمیں زرعی میدان میں متبادل جدید آبپاشی کے نظام کو فروغ دینا ہو گا تاکہ پانی کی بچت کو ممکن بناتے ہوئے خودکفالت کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے بین الاقوامی کانفرنس بعنوان جیوانفارمیٹک برائے پانی اور زرعی ریسورس مینجمنٹ سے بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے زرعی سائنسدانوں پر زور دیا کہ وہ کم پانی والے آبپاشی کے ذرائع کو عام کرنے کیلئے انڈسٹری کے ساتھ مل کر کاوشیں بروئے کار لائیں۔ انہوں نے بیڈپلانٹر کو رواج دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پانی کی کافی مقدار کو بچایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چند دہائیوں پہلے کھالہ جات کی پختگی اہمیت کی حامل تھی تاہم دورحاضر میں اس سے کہیں بہتر متبادل ذرائع موجود ہیں جس کو کاشتکاروں تک پہنچانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس موقع پر ڈین انجینئرنگ ڈاکٹر انجم منیر نے کہا کہ آزادی کے وقت پاکستان کی فی کس پانی پانچ ہزار کیوبک میٹر دستیاب تھا تاکہ اب یہ کم ہوتے ہوئے ہزار سے بھی نیچے آ گیا ہے جس کیلئے پانی کو بچانے کے حوالے سے اصلاحات ناگزیر ہیں۔
چیئرمین اریگیشن ڈاکٹر عدنان شاہدنے کہا کہ ٹیوب ویل کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح نیچے جانے کے ساتھ ساتھ معیار بھی متاثر ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دورحاضر میں عوامی سطح پر پانی کی بچت کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہو گا۔ ڈاکٹر روبیٹوریان ژی نے کہا کہ ہندوکش، قراقرم، ہمالیہ دنیا کے بہترین پانی ٹاور کے طور پر جانے جاتے ہیں جس سے اربوں افراد مستفید ہو رہے ہیں۔
ملائیشین سائنسدان ڈاکٹر اینور احمدنے کہا کہ ڈرون، مصنوعی ذہانت اور سنسر کے اشتراک سے ٹیکنالوجی کے ذریعے جڑی بوٹیوں کے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ چین کے سائنسدان ڈاکٹر ژوپنگ لی نے کہا کہ پانی کی کمیابی فصلوں کو متاثر کر رہی ہے جس کیلئے ہمیں ریموٹ سنسنگ بیس نگرانی کے نظام سے مدد لینا ہو گی۔
پنجاب یونیورسٹی کی نوویرہ ازک نے کہا کہ لینڈ سرفس ٹمپریچر کو بڑھانے میں بڑے شہروں کا بے ہنگم پھیلاؤ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ لینڈ سرفس ٹمپریچر میں اضافے کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں اور دیگر مسائل سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔