فیصل آباد۔ 17 فروری (اے پی پی):پاکستان میں نوجوانوں سمیت تعلیمی اداروں کے بعض طلبا و طالبات میں نشہ آور ادویات کا بڑھتا ہوا استعمال انتہائی تشویشناک ہے جبکہ آئس، کوکین، ہیروئن، چرس، شراب، حقہ،شیشہ، خواب آور گولیوں کے استعمال سمیت کچھ نئی اقسام کی منشیات کااستعمال نوجوان نسل کو تباہی کی طر لے جا رہا ہے لہٰذا منشیات استعمال کرنے والے نوجوانوں کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی صحت پر بڑھتے ہوئے منفی اثرات کو روکنے کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔
انجمن انسداد منشیات ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال فیصل آبادکے روح رواں انچارج شعبہ نفسیات و ذہنی امراض و ترک منشیات ڈی ایچ کیو و الائیڈ ہسپتال پروفیسر ڈاکٹر امتیاز احمد ڈوگرنے اے پی پی سے بات چیت کے دوران کہا کہ پاکستان میں نوجوانوں میں نشہ آور ادویات کا استعمال کچھ سالوں سے بتدریج بڑھ رہا ہے جس میں روائتی نشہ جیسا کہ ہیروئن، چرس، شراب، خواب آور گولیوں کے علاوہ اب کچھ نئی قسم کے منشیات کے استعمال کا رجحان پایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ خا ص طور پر سکولز و کالجز اور یونیورسٹیز جانے والے بعض طلبا ء و طالبات میں نشے کی لت بڑھ رہی ہے جن میں سے زیادہ تر کو پارٹی ڈرگزکہا جاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ان منشیات سے جسمانی و ذہنی اور اخلاقی صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن سے نوجوان نسل لا علمی کی وجہ سے بہت سی پیچید گیوں کا شکار ہو رہی اور تباہی کی طرف جا رہی ہے اسلئے انہیں منشیات کے بارے میں علم رکھنا ضروری ہے خاص کر والدین اور اساتذہ کا یہ جاننا بہت اہم ہے۔انہوں نے کہاکہ منشیات کے عادی افراد قابل علاج ہیں لہٰذا والدین اپنے بچوں کو مزید تباہی سے بچانے کیلئے ماہر نفسیات سے رابطہ کریں۔
انہوں نے کہاکہ اگرچہ مریض کے ٹھیک ہونے کے بعد دوبارہ نشہ شروع کرنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن باقاعدگی سے چیک اپ، سماجی و معاشرتی بحالی اور خاندان کے کردار کے ذریعے اس کو کم کیا جا سکتاہے۔انہوں نے کہاکہ اگر کسی خاندا ن کا کوئی فرد نشہ جیسی لعنت میں پھنس چکا ہے تو اس کیلئے اس کے خاندان اور معاشرے کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔انہوں نے کہاکہ نشہ کے مریضوں کی آنکھیں سرخ، چہرے کی رنگت اڑی ہوئی یا سیاہی مائل نظر آتی ہے،جسم کمزور اور لاغر پڑ جاتا ہے،دانت پیلے سیاہ ہو جاتے ہیں،اسی طرح نشے کے حامل فرد کی طبیعت میں چڑ چڑا پن اور بلا وجہ غصہ کرنا،اپنے اعمال کو چھپانے کیلئے گھر والوں سے بد اخلاقی سے پیش آنا اور رقم کا مسلسل مطالبہ کرنا اس کی عادت بن جاتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ایسے افراد کیلئے بطور ایک خاندان اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ ہم سب مل کر یہ ذمہ داری نبھائیں اور بچوں کو گھر پر ہی اچھی تربیت سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو گھر سے باہر ایک خوشگوار ماحول مہیا کریں اور ان کے فاضل اوقات میں ان کیلئے تفریحی و مشاغل کا بندو بست کریں اور ان کی مکمل دیکھ بھال کریں تاکہ علم ہو کہ وہ گھر سے باہر اپنا وقت کتنا اور کیسے کن کن لوگوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ والدین اپنے بچوں کے دوستوں اور ملنے جلنے والوں پر کڑی نظر رکھیں۔
انہوں نے کہاکہ منشیات کا استعمال کرنے والوں کا علاج تین مختلف ٹیموں کی باہمی مشاورت سے ہوتا ہے جن میں ادویات سے علاج، نفسیاتی علاج اور سماجی بحالیت شامل ہے،اس کے علاوہ انہوں نے بتایاکہ نشہ کرنے والے افراد میں سے کچھ لوگ نشہ کے عادی کیوں بن جاتے ہیں اس کی اصل وجہ تو ابھی تک پوری طرح معلوم نہیں ہو سکی لیکن اس سے مریض کی شخصیت اور ماحول کا گہرا تعلق ہے اسکے علاوہ نشہ آور اشیا کی دستیابی، مذہب سے دوری،موروثی عمل، احساس کمتری، والدین کی غلط تربیت،قانون کی کمزور گرفت، جسمانی بیماریا ں،نفسیاتی او رجنسی مسائل،بیروز گاری،ماحول کا اثر،تقلید تجسس،معاشی بدحالی، عشق میں ناکامی،شخصیت کے نقا ئص، تعلیم کی کمی، کاروباری میں نقصان نشہ کی وجوہات میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ نشہ کی اقسام میں عمومی طور پر ہیروئن، چرس، افیون، مختلف انواع و اقسام کے انجکشن اور ادویات، شراب، بھنگ، نیند کی گولیاں،کھانسی کے شربت، گٹکا، شیشہ، مخصوص پان،تمباکو نوشی، نسوار اور سونگھنے والے کیمیکل وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں نوجوان نسل کو نشے سے بچانے کیلئے سخت اقدامات کرنا ہوں گے اور منشیات تیار و فروخت کرنے والوں کے قلع قمع کیلئے بھی اپنا کردار ادا کرناہو گا۔