اسلام آباد۔6اگست (اے پی پی):وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈویژن ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ پاکستان صرف شفاف توانائی کی بات نہیں کرتا بلکہ باقی ماندہ دنیا کے ساتھ یا ان کے بغیر شفاف ترین ماحول دوست توانائی کی آئندہ نسل کو منتقلی کو یقینی بنانے کی بات کرتا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کوادارہ برائے پائیدار ترقی پالیسی( ایس ڈی پی آئی) اور پائیدار ترقی اہداف (ایس ڈی جیز) پر پارلیمانی ٹاسک فورس کے زیر اہتمام مشترکہ طور پر منعقدہ پارلیمانی مشاورت بعنوان ”ایک پائیدار مستقبل کی طرف: انتخابی منشور 2023 میں توانائی کی منتقلی اور موسمیاتی کارروائی کی شمولیت” سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیر مملکت نے کہا کہ روس۔یوکرین کے بحران نے ترقی پذیر ممالک کے لیے توانائی کی غیر متناسب افراط زر کی وجہ سے شفاف توانائی کی منتقلی اور رسائی کو مشکل بنا دیا ہے لہذا، یہ ضروری ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے فنانس موبلائزیشن کے ساتھ منصفانہ اور صاف توانائی کی منتقلی کی حمایت کی جائے تاکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مقامی ترقی کو ممکن بنایا جا سکے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صاف توانائی کی منتقلی کی جوابدہی نہ صرف ترقی پذیر ممالک بلکہ سب کے لئے یکساں ہونی چاہیے ۔ ڈاکٹر مصدق نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں پٹرولیم کمپنیاں بشمول آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل)، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ(پی پی ایل)، پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) مطالبہ کر رہی ہیں کہ انہیں توانائی کی کمپنیوں میں منتقل کیا جائے اور وہ قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کی خواہاں ہیں۔
وزیراعظم کی معاون خصوصی رومینہ خورشید عالم نے اس بات پر زور دیا کہ پارٹی منشور کی تیاری میں موسمیاتی سرگرمیاں اور قابل تجدید توانائی کو ترجیح بنانے سے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے عزم کا اظہار ہو سکتا ہے اور بین الاقوامی موسمیاتی مالیاتی شراکت داری میں پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماحول دوست صاف توانائی کا حل، صاف ترین توانائی پر منتقلی اور انتخابی منشور میں موسمیاتی سرگرمیوں کو حصہ بنانے کا عمل نہ صرف موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے اہم ہیں بلکہ سماجی انصاف، اقتصادی ترقی اور عالمی قیادت کی فراہمی کے عزم کے اظہار کا بھی ذریعہ ہیں۔
انہوں نے ایس ڈی پی آئی کے ساتھ مل کر فوسل فیول کے مرحلہ وار استعمال کی تجویز بھی پیش کی۔ سینیٹر تاج حیدر نے پاکستان کے توانائی کے شعبے میں پالیسی کے عدم تسلسل کو دور کرنے پر زور دیا تاکہ پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے تیزی سے آغاز کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جھمپیر میں ہوا اور شمسی توانائی سے 3000 میگاواٹ بجلی پیدا کی گئی لیکن ترسیل کے ناقص انفراسٹرکچر دیگر علاقوں کو سپلائی میں رکاوٹ ہے اور یہ مسائل ونڈ اور سولر پاور پلانٹس میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں رکاوٹ بن ر ہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سینیٹ نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ صنعتی شعبوں کو سولر پارکس سے لیس کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2020 کے سیلاب کے بعد سندھ میں 50 ہزار گھروں کی تعمیر نو کی گئی، 200,000 گھروں کو سولرائز کیا گیا اور 2000 میں سے 700 ریورس اوسموسس پلانٹس کو سولرائز کیا گیا۔ انہوں نے پسماندہ علاقوں میں توانائی کی رسائی کو بہتر بنانے کے لیے ٹرانسمیشن انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے اور مقامی گرڈ سسٹم کی تنصیب پر زور دیا۔
ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شفقت منیر نے کہا کہ توانائی، پانی اور زراعت دور حاضر کے اہم مسائل ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھ گئے ہیں اور ایس ڈی پی آئی پالیسی سازوں کو تخفیف کے اقدامات اور صاف توانائی کی منتقلی کو فروغ دینے میں پالیسی سازوں کی مدد کرنے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے ایک تحریک بھی پیش کی جس میں پارلیمنٹ پر زور دیا گیا کہ وہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے حق میں توانائی کی بلا تعطل منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے عملی نقائص کو دور کرے، جس میں ” فوسیل فیول کے مرحلہ وار استعمال کے لیے بین الاقوامی معاہدے” پر بھی زور دیا۔ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے ” ایجنڈا فار انرجی سیکٹر ریفارمز” پیش کیا جو کہ پانچ اہم شعبوں کا احاطہ کرتا ہے جن میں قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی، توانائی کے شعبے کی اقتصادی بحالی، صارف شعبوں کو بجلی کی فراہمی اور کاربن کے اخراج میں، دیہی علاقوں کو توانائی کی فراہمی اور ڈیمانڈ سائیڈ مینجمنٹ پر توجہ میں اضافہ شامل ہیں۔
پاکستان میں جرمن سفارتخانے کے ترقیاتی تعاون کے سربراہ ڈاکٹر سیبسٹین پاسٹ نے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی توانائی کی فنانسنگ کو مقامی فنڈز کے ساتھ جوڑیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ صاف توانائی کی منتقلی بیرونی خطرات سے محفوظ رہے۔ انہوں نے ریگولیٹری فریم ورک کو آسان بنانے اور قابل تجدید توانائی کے لیے درآمدی پالیسیوں پر زور دیا تاکہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو تقویت ملے، نجی فنانس کو متحرک کیا جا سکے اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی شراکت کے ذریعے مقامی پیداواری صلاحیت کو فروغ دیا جا سکے۔
الٹرنیٹو انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ کے ڈائریکٹر پالیسی سید عقیل جعفری نے ٹرانسمیشن انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے، قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز کے مقامی مینوفیکچرنگ لینڈ سکیپ کی حمایت اور نجی شعبے کو ترغیب دے کر فعال شمولیت پر زور دیا۔ بدر عالم، چیف ایگزیکٹو آفیسر، پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار ایکوئٹیبل ڈیولپمنٹ (پرائیڈ) نے زور دیا کہ قابل تجدید توانائی کی پالیسیوں کو توانائی کی منصفانہ منتقلی کے ایک لازمی جزو کے طور پر پسماندہ کمیونٹیز کو ترجیح دیتے ہوئے آب و ہوا اور سماجی انصاف کو یقینی بنانا چاہیے۔
اسد محمود نے صنعتی علاقوں میں قابل تجدید توانائی کی پیداوار کے آغاز اور قانون سازی کے آلات کے ذریعے صنعتوں میں قابل تجدید توانائی سے چلنے والے آلات کی تنصیب اور توانائی کی رسائی کو فروغ دینے کے لیے آف گرڈ توانائی کے منصوبوں کو چلانے کے لیے مقامی کمیونٹیز کو بااختیار بنانے پر زور دیا۔ ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر حسن داد نے کہاکہ اگرچہ صرف سرکاری مالیات پر انحصار نہیں بلکہ مقامی سرمائے کو متحرک کرنا ہوگا اور ریگولیٹری فریم ورک کے خلا کو دور کرنا ہوگا
تاکہ صاف توانائی کی منتقلی کو تیزی سے آگے بڑھایا جا سکے اور سرمایہ کاروں کی دلچسپی اور اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ایک مضبوط کاروباری پیشکش کی جا سکے ۔ پارلیمانی مشاورت میں تعلیمی اداروں، سی ایس اوز، فنانس سیکٹر، ترقیاتی شراکت داروں اور سفارتی مشنوں کے سینئر ماہرین نے بھی شرکت کی۔