اسلام آباد۔22نومبر (اے پی پی):پاکستان اوربین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) توسیعی سہولت فنڈ کے تحت پالیسز اوراصلاحات کے چھٹے جائزہ کے حوالہ سے سٹاف معاہدہ پرمتفق ہوگئے ہیں جس کے بعدپاکستان کومزید ایک ارب، 5 کروڑ، 90 لاکھ ڈالرکی معاونت ملنے کے ساتھ ساتھ کثیرالجہتی اوردوطرفہ شراکت داروں سے مختلف منصوبوں کیلئے فنڈز کی فراہمی کی راہیں ہموارہوگئی ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف ) کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہاگیاہے کہ پاکستانی حکام اورآئی ایم ایف توسیعی سہولت فنڈ کے تحت پالیسز اوراصلاحات کے چھٹے جائزہ کے حوالہ سے سٹاف معاہدہ پرمتفق ہوگئے ہیں۔ پچھے اقدامات بالخصوص زری اورادارہ جاتی اصلاحات کے نفاذ کی صورت میں آئی ایم ایف کا انتظامی بورڈ معاہدے کی توثیق کرے گا۔جائزے کی تکمیل کی صورت میں پاکستان کو مزید 1.059 ارب ڈالرکی معاونت ملے گی جس کے بعدتوسیعی سہولت فنڈ کے تحت پاکستان کوملنے والی مجموعی معاونت 3.027 ارب ڈالرہوجا ئے گی۔
اس کے علاوہ پاکستان کودوطرفہ اورکثیرالجہتی شراکت داروں سے مزید فنڈز کی فراہمی کی راہ ہموارہوگی۔کورونا وائرس کی عالمگیروبا سے نمٹنے کیلئے پاکستان کواپریل 2020 میں 1.015 ارب ڈالرکی اضافی معاونت بھی فراہم کی گئی تھی۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے جاری بیان میں کہاگیاہے کہ بات چیت میں مشکل ماحول کے باوجود توسیعی سہولت فنڈ(ای ایف ایف)کے تعاون سے چلنے والے پروگرام کے نفاذ میں پیش رفت جاری ہے۔
جون کے آخر کے لیے پرائمری خسارہ کوچھوڑکر مقداری کارکردگی کے تمام معیارات کو وسیع مارجن کے ساتھ پورا کیا گیا ۔ ڈھانچہ جاتی محاذ پر قابل ذکر کامیابیوں میں نیشنل سوشل اکنامک رجسٹری (این ایس ای آر) اپ ڈیٹ کو حتمی شکل دینا، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) ایکٹ میں ترامیم کی پارلیمان سے منظوری، تمام زیر التوا سہ ماہی پاور ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کا نوٹیفکیشن، اور آئی پی پیز کو پہلی ادائیگی شامل ہیں ۔
بیان میں کہاگیاہے کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات وقوانین کو بہتر بنانے اور دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام کے فریم ورک میں بھی پیش رفت کی ہے۔
بیان میں کہاگیاہے کہ کلی معیشت کے حوالہ سے دستیاب اعداد و شمار سے پاکستان میں مضبوط معاشی بحالی کی عکاسی ہورہی ہے۔پاکستان نے کووڈ۔ 19 سے نمٹنے کیلئے کثیرالجہتی پالیسی اختیارکی جس سے وبا کے انسانوں اورمعیشت پرپڑنے والے منفی اثرات پر قابو پانے میں مدد ملی۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ٹیکس اورمحصولات میں بہترنموہوئی ، بیان میں کہاگیاہے کہ حسابات جاریہ کے کھاتوں میں خسارہ اور کرنسی کی قدرمیں کمی کا دبائو بنیادی طور پر مضبوط معاشی سرگرمی، توسیعی میکرو اکنامک پالیسی مکس، اور اجناس کی بلند بین الاقوامی قیمتوں کے مرکب اثرات کی عکاسی کرتا ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے حکام نے پالیسیوں کو ایڈجسٹ کرنا شروع کر دیا ہے ۔سٹیٹ بینک آف پاکستان نے زری پالیسی میں تبدیلی کی ہے ۔صارفین کے قرضوں کی نمو کو روکنے کے لیے اقدامات کئے گئے۔
پاکستان کی حکومت مالیاتی اقدامات کا ایک پیکج متعارف کرانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے جس کے تحت گزشتہ مالی سال کے حوالے سے بنیادی خسارے کی چھوٹی سی کمی کو ہدف بنایا جائے گا، ٹیکس کے نظام کو آسان اور منصفانہ بنانے کے لیے اقدامات کئے جائیں گے جس میں جی ایس ٹی نظام میں اصلاحات بھی شامل ہیں، سماجی تحفظ کیلئے اخراجات کویقینی بناتے ہوئے کفایت شعاری سے اخراجات کو یقینی بنایا جائے گا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق ان پالیسیوں سے وسط مدتی منظرنامہ میں بہتری آئے گی اوراس سے مالی سال 2022 میں نمو 4 فیصد اور اس کے بعد کے مالی سال میں 4.5 فیصد تک پہنچنے یا اس سے زیادہ ہونے کا امکانات ہے۔ تاہم افراط زر کی شرح بلند رہے گی ۔
برآمدات میں نمو کے باوجود رواں مالی سال میں کرنٹ اکائونٹ وسیع ہونے کی توقع ہے، جو بڑھتی ہوئی درآمدی طلب اور بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں کی عکاسی کررہاہے ۔ بات چیت میں تمام پاکستانیوں کے فائدے کے لیے پائیدار ترقی میں مدد کرنے کی پالیسیوں پر بھی توجہ مرکوز کی گئی۔آئی ایم ایف نے کہاہے کہ زری پالیسی افراط زر کو روکنے، شرح مبادلہ کی لچک کو برقرار رکھنے اور بین الاقوامی ذخائر کو مضبوط بنانے پرمبنی ہونا چاہئیے ۔
معاشی استحکام مضبوط ہونے اور سٹیٹ بینک ایکٹ میں ترامیم کی منظوری سے سٹیٹ بینک کی آزادی مضبوط ہوگی ، سٹیٹ بینک کو بتدریج تیاری کے کام کو آگے بڑھانا چاہیے تاکہ درمیانی مدت میں مہنگائی کے ہدف کو باضابطہ طور پر اپنایا جا سکے ۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے بیان میں پاکستان میں بجلی کے شعبہ میں اصلاحات کابھی ذکرکیاگیاہے اوربتایا گیاہے کہ بجلی کے شعبے میں اصلاحات کے لیے حکمت عملی کو آگے بڑھانا چاہئیے اور اس پر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ اتفاق بھی کیا گیا ہے، اس شعبے کو مالیاتی عمل کی طرف لانا ضروری ہے گردشی قرضہ کے انتظام وانصرام کے منصوبہ (سی ڈی ایم پی) کے مستقل نفاذ سے انتظامی بہتری، لاگت میں کمی، لاگت کی وصولی کی سطح کے ساتھ ٹیرف کی بروقت صف بندی اور سب سے زیادہ ضرورت مندوں کو سبسڈی کے بہتر ہدف بنانے میں مدد ملے گی۔
رسد کے اخراجات کو کافی حد تک کم کرنے کے لیے ایک جدید بجلی کی پالیسی کی ضرورت ہوگی جس میں اس بات کویقینی بنایا جائے کہ صارفین پر بھاری بوجھ نہ ڈالا جائے ، قابل تجدید ذرائع کے وسیع استعمال کو ممکن بنایا جائے اور درمیانی مدت میں مزید مسابقت متعارف کرائی جائے۔
درمیانی مدت کے منظرنامہ کو مضبوط کرنے کیلئے اقتصادی پیداوار میں اضافہ، سرمایہ کاری، اور نجی شعبے کی ترقی کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی سے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔سرکاری کاروباری اداروں کی کارگردگی میں بہتری اورشفافیت ضروری ہے