پاکستان اور ترکیہ کا قلبی رشتہ ہے جس کا اظہار لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا، ترک قونصل جنرل جمال سانگو

119

کراچی۔ 23 جنوری (اے پی پی):ترکیہ کے کراچی میں تعینات قونصل جنرل جمال سانگونے کہا ہے کہ پاکستان اورترکیہ کارشتہ سمندروں سے گہرا اور کے ٹو سے اونچا ہے، پاکستان اور ترکیہ دو ملک ایک قوم کی حیثیت رکھتے ہیں، ہماری محبت لفظوں کی محتاج نہیں ہے،پاکستان اور ترکیہ کا قلبی رشتہ ہے جس کا اظہار لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا،ترکی زبان کا شمار دنیا کی چند بڑی زبانوں میں ہوتاہے،ترکیہ کی مختلف جامعات اور انسٹی ٹیوٹ میں اُردوزبان پڑھائی جاتی ہے کیونکہ زبان ایک انسان کے دوسرے انسان سے رابطہ کا سب سے اہم ذریعہ ہوتاہے،مجھے خوشی ہے کہ جامعہ کراچی میں ترکی زبان کے سرٹیفیکٹ کورسز مکمل کرنے والے طلبہ آج اپنے تاثرات کا اظہارترکی زبان میں کررہے ہیں نہ صرف یہ بلکہ پوری تقریب میں نظامت کے فرائض بھی ترکی زبان میں انجام دیئے گئے جس سے ظاہر ہوتاہے کہ پاکستانی اور بالخصوص جامعہ کراچی کے طلبہ ترکی زبان میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔جاری اعلامیہ کے مطابق ان خیالات کا اظہارانہوں نے یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ برائے ترکی زبان جامعہ کراچی کے زیر اہتمام آڈیوویژول سینٹرجامعہ کراچی میں منعقدہ سیمینار بعنوان”اُردو ادب اور صحافت پر ترک تاریخ کے اثرات“ اور تقریب تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر بدست شیخ الجامعہ پروفیسرڈاکٹر خالد محمودعراقی اور ترکیہ کے قونصل جنرل جمال سانگوترکی زبان کے سرٹیفیکٹس کورس مکمل کرنے والے طلباوطالبات میں اسناد تقسیم کئے گئے۔جمال سانگو نے ترکیہ کی جانب سے پاکستانی طلباوطلبات کو فراہم کئے جانے والے مختلف اسکالرشپس کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ اسکالرشپ حاصل کرنے والے طلبہ کی مالی معاونت، ٹیوشن فیس، رہائش کے اخراجات اور ہیلتھ انشورنس کے علاوہ متعلقہ شعبہ میں کام کرنے اور دوران تعلیم ہر سطح پر تعلیمی، سماجی اور ثقافتی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔انہوں نے مختلف اسکالرشپس کا ذکرکرتے ہوئے بتایا کہ ترک مذہبی امور فاؤنڈیشن اسکالرشپ کے تحت بھی کالجزاور جامعات کی سطح پراسکالرشپ فراہم کئے جاتے ہیں جو صرف مذہبی علوم کے لئے فراہم کئے جاتے ہیں۔انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود بھی ان اسکالرشپس سے استفادہ کریں اور اپنے ساتھ ساتھ دیگر طلبہ کو ان اسکالرشپس کے بارے میں بتائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ اس سے استفادہ کرسکیں۔جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمودعراقی نے کہاکہ زبان صرف افراد ہی نہیں بلکہ تہذیبوں اور قوموں کے مابین رابطے کا اہم ذریعہ ہوتی ہے،زبان سیکھنا اور اس میں مہارت حاصل کرنا ایک بڑی کامیابی ہوتی ہے۔

کسی بھی ملک کے سفر پر جانے کے لیے اس ملک کی زبان سے متعلق آگہی بے حد ضروری ہوتی ہے،اس ملک کے لوگوں سے ملنے اور ان کی ثقافت کو سمجھنے کے لئے اس ملک میں بولی جانے والی مخصوص زبانوں پر عبور حاصل کرنا ناگزیرہوتاہے۔کسی بھی ملک سے مختلف کاروباری اورتعلیمی مقاصدکے حصول کے لئے اس ملک کی زبان سے متعلق آگہی انتہائی ناگزیر ہوتی ہے۔ڈاکٹر خالد عراقی نے مزید کہاکہ زبان نہ صرف خیالات، جذبات اور معلومات کے تبادلے کا ذریعہ ہوتی ہے بلکہ یہ شناخت اور تعلقات کی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے۔ کسی نئی زبان پر عبور حاصل کرنا ایک نہایت دلچسپ اور چیلنجنگ کام ہوتا ہے۔انہوں نے سرٹیفیکٹ کورس مکمل کرنے والے طلباوطالبات کو مبارکباد پیش کی اور یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ برائے ترکی زبان جامعہ کراچی کی فوکل پرسن پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس اور ان کی ٹیم کی کاوشوں کوسراہا۔شعبہ تاریخ اسلام جامعہ کراچی کے پروفیسرڈاکٹر محمدسہیل شفیق نے اپنا مقالہ بعنوان”پاکستان میں ترکی زبان کی تدریس:تاریخی تناظرمیں“پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ترکی کی تاریخ،ثقافت،سیاست اور ادب میں بہت سی چیزیں مشترک ہونے کے باوجود ہم ایک دوسرے کی تاریخ ثقافت،سیاست اور ادب سے بڑی حدتک اجنبی رہے ہیں جس کا بنیادی سبب زبان ہے۔اگرچہ قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی پاکستان کی مختلف جامعات میں کسی حد تک ترکی زبان کی تدریس کے سلسلے کا آغاز ہوگیا تھا۔ہمیں اپنی تاریخ اور اس کا صحیح پس منظر سمجھنے کے لئے وسط ایشیاء کی تاریخ اور ترکوں کے پورے ثقافتی وسیاسی ڈھانچے کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ اسی وقت ہوسکتاہے جب ہم ترکی زبان میں دلچسپی لیں اور اس کا علم حاصل کریں۔

رئیس کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ زبان پر عبورحاصل کرنا ایک مسلسل عمل ہے جس کے لئے وقت اور محنت دونوں ضروری ہوتے ہیں۔انہوں نے سرٹیفیکٹ کورسزمکمل کرنے والوں کو مبارکباددی اوراس کو آگے بڑھنا ایک ذریعہ قراردیا۔انہوں نے کہا کہ ترکی تاریخ جاننے اور ثقافت سے ہم آہنگی کے لئے ترکی زبان پر عبور ناگزیر ہے۔ڈاکٹررانا خالد محمودنے اپنا مقالہ بعنوان ”بیسویں صدی کے اوائل میں اُردو صحافت پر ہم عصرترک تاریخ کے اثرات“پیش کرتے ہوئے کہا کہ انسانوں کے درمیان باہمی ارتباط اور یگانگت کی راہ میں جو سب سے اہم فطری رکاؤٹ حائل رہی ہے شاید دوزبانوں کا فرق ہے اور اس فرق کو دورکرنے میں تاریخ اور صحافت نے اہم کرداراداکیاہے۔

ترکیہ اور برعظیم پاک وہند ہزاروں میل دورہوتے ہوئے بھی ایک ڈورسے بندھے نظرآتے ہیں۔بیسویں صدی کے اوائل میں صحافت کو وہ سہولیات میسرنہ تھیں جو آج عملاً نظرآرہی ہیں،آج کے دور میں صحافت جدید سہولیات سے مزین اورپلک جھپکنے سے پہلے خبریں دنیا کے طول وعرض تک پہنچ جاتی ہیں۔وفاقی اُردو یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر نادیہ راحیل نے اپنا مقالہ بعنوان”ترکی ناولوں کے اُردو تراجم،ایک جائزہ“پیش کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح زبانیں دوسری زبانوں کی آبیاری کرتی ہیں،اسی طرح زبانوں کا ادب دوسری زبانوں کے ادب کو پروان چڑھانے میں معاون کرداراداکرتے ہیں۔یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ برائے ترکی زبا ن جامعہ کراچی کی فوکل پرسن پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ترکی زبان کی اولیت کا سہراجامعہ کراچی کو جاتاہے۔