اسلام آباد۔29جنوری (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان 70 سالہ قدیم دوستانہ قریبی تعلقات ہیں، آئندہ ہفتہ دورۂ چین کا منتظر ہوں، چین کے تجربات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، مزید سیکھنے کے خواہاں ہیں، وقت کیساتھ پاکستان اور چین کی دوستی مزید مضبوط ہوگی، عالمی برادری نے اگر افغانستان کے عوام کو مشکل کی اس گھڑی میں چھوڑ دیا تو وہاں بدترین انسانی بحران جنم لے گا، اویغور کے معاملہ پرتنقید اور کشمیر پر جان بوجھ کو خاموشی اختیار کرنا مغرب کا دوہرا معیار ہے۔
ہفتہ کو چینی میڈیا کو انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں اپنے وفد کے ہمراہ اگلے ہفتے کے اختتام پر دورۂ چین کا منتظرہوں،چین جانا ہمیشہ باعثِ مسرت رہا ہے، ہمارے 70 سالہ قدیم تعلقات ہیں،پاکستان کے عوام اور چین کے عوام کے درمیان گہرے تعلقات ہیں،اس لئے چین جانا ہمیشہ خوشی کا باعث ہے اور میں دورۂ چین کا منتظر ہوں۔
وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط تر ہوئے ہیں،اس کی بنیادی وجہ پاکستان میں پایا جانے والا یہ احساس ہے کہ چین ہمیشہ ضرورت کے وقتوں میں ہمارے ساتھ کھڑارہا ہے،پاکستان جب بھی کسی مشکل دورسےگزرا چین ہمیشہ ہمارے ساتھ کھڑا ہوااور پاکستان بھی چین کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور ہم ہمسائے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں سکول میں پڑھتا تھا جب قراقرم ہائی وے تعمیر کی جارہی تھی،یہ شاہراہ چین کی حکومت اور پاک فوج کے باہمی تعاون سے تعمیر ہوئی یہ ایک بہت مشکل منصوبہ تھا کیونکہ راستے بہت کٹھن تھے۔
بلند پہاڑی سلسلے تھےاور مجھے یاد ہے کہ بہت سے چینی کارکن شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے دوران جاں بحق بھی ہوئے،اس لئے یہ تعلقات بہت گہرے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مزید مضبوط ہوئے ہیں اور سی پیک نے بھی دو ملکوں کو مزید قریب کر دیا ہے، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ پہلے اولمپکس ہیں نہ صرف سرمائی بلکہ کوئی بھی جو میں براہِ راست دیکھوں گا، مجھے اس کا شدت سے انتظار ہےاور آپ جانتے ہیں کہ میں ایک کھلاڑی رہا ہوں،اپنی زندگی کے تقریباً 20 سال میں ایک بین الاقوامی کھلاڑی رہا ہوں چین کے لوگ کرکٹ نہیں کھیلتے،
مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہمارے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے،ہم چین کے لوگوں کو کرکٹ کھیلنا بھی سکھادیں گے تاکہ چین بھی کرکٹ کھیلنے والی زبردست ٹیم بن جائے،میں اس کا منتظر ہوں کیونکہ بطورِ کھلاڑی دونوں ملکوں کے قریبی باہمی تعلقات کے ساتھ ساتھ میرے لئے ان کھیلوں کو دیکھنا بہت دلچسپی کا باعث ہے کیونکہ جب سے سیاست میں آیا ہوں میں کھیلوں کے کوئی بھی مقابلے دیکھنے سے محروم رہا ہوں۔
وزیراعظم نے کہا کہ عالمی وباء سے باقی تمام چیزوں کے علاوہ دنیا بھر میں کھیلوں کے مقابلے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں،اس تناظر میں چین میں سرمائی اولمپکس کا انعقاد بہت قابلِ تعریف ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ چین کے حوالے سے سب سے متاثر کن چیز جسے اب ساری دنیا تسلیم کرتی ہے وہ چین کا گزشتہ 35-40 سال کے دوران 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے باہر نکالنا ہے،انسانی تاریخ میں اس سے قبل ایسا کبھی ہوا نہیں یہی چیز ساری دنیا کو چین کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے،چاہے ان کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں یا وہ دوسری جانب ہوں یعنی چین کی مخالفت کرتے ہوںتاہم سب کو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انسانی تاریخ میں اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ جو چیز مجھے چین کے متعلق سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ یہی حقیقت ہے،کیونکہ میرا بھی بنیادی مقصد یہی ہے کہ پاکستان میں کسی طریقے سے لوگوں کو غربت سے باہر نکالنا ہے،آپ جانتے ہیں کہ جب میں چین گیا تو میں خاص طور پران اقدامات کے بارے میں جاننا چاہتا تھا جو غربت کے خاتمے کیلئے وہاں اٹھائے گئے،
یہی وجہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ چین کےترقیاتی ماڈل کی ہم یہاں پاکستان میں تقلید کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس ماڈل کے ذریعے چین نے سبھی کو بڑھوتری میں حصہ دار بنایاجب چین میں بڑھوتری ہوئی تو چین کے ساتھ ساری آبادی نے ترقی کی،یہ ویسا نہیں تھا جو بدقسمتی ہے جیسا کہ باقی دنیا میں امیر امیر تر ہوتے جاتے ہیں اور غریب غریب تر،امیر اور غریب کے مابین خلاء بڑھتا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درحقیقت ہم نے عالمی وباء کے دوران دیکھا کہ غریب لوگ غریب تر ہوئے جب کہ امیر ترین لوگ مزید امیر ہوگئے، چین ان تمام ممالک کیلئے ایک ماڈل ہے جو تمام لوگوں کی ترقی چاہتے ہیں ۔
وزیراعظم نے کہا کہ دراصل سی پیک کے پہلے مرحلے میں رابطے بڑھانے اور توانائی کی پیداوار پر توجہ دی گئی اب سی پیک اگلے مراحل میں داخل ہو گیا ہے جہاں صنعتوں کو نئی جگہوں پر منتقل کیا جا رہا ہےہم اپنے خصوصی صنعتی زونز کو ترقی دینا چاہتے ہیں پھر خاص طور پر ہم اپنے زرعی شعبے کی پیداوار میں اضافے کیلئے مدد چاہتے ہیں کیونکہ چین میں زرعی اور لائیو سٹاک کے شعبوں میں پیدوار کی شرح پاکستان کے مقابلے میں زیادہ ہے،
ہمیں اس سلسلے میں بھی مدد درکار ہے،اس کے علاوہ چین نے خشک سالی سے محفوظ کپاس کی کئی ایک اقسام تیار کی ہیں،پاکستان میں ہمارے پاس ایسی بہت سی زمین ہے جہاں کپاس کی یہ اقسام اگائی جا سکتی ہیں اس حوالے سے ہم چین سے مدد حاصل کریں گے،اس کے علاوہ ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ بھی ہےاور ٹیکنالوجی کے شعبے میں انقلاب دنیا کا مستقبل ہے،چین نے اس تناظر میں بہت ترقی کی ہے اور اس شعبے میں بھی ہم چین سے مدد چاہیں گے،
سنکیانگ میں اویغور کے ساتھ سلوک کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اویغور کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کے حوالے سے مغرب میں بہت تنقید ہو رہی ہے،ہم نے چین میں اپنے سفیر معین الحق کو وہاں بھیجااور انہوں نے رپورٹ دی ہے کہ زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں،پاکستان میں ہمارے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ ایک طرف وہ اویغور کی بات کرتے ہیں لیکن مغرب میں وہ کشمیر کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتےکیونکہ کشمیر میں بھارت کی طرف انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی گئی ہے اور ایک طرح مغرب نے کشمیر پر جان بوجھ کر خاموشی اختیار کی ہےجہاں تقریباً نوے لاکھ افراد مشکل ترین حالات میں آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں ایک کھلی جیل میں رہ رہے ہیں ،مغر ب کا دوہرا معیار ہے اور ہمارے لیے یہ ایک مشکل صورتحال ہے۔
افغانستان کی صورتحال سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان 40 سال سے مشکل صورتحال سے دوچار رہا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ 40 سال تک بیرونی طاقتوں نے افغانستان کو میدان جنگ بنائے رکھاتو 40 سال تک افغانستان کے لوگوں نے مشکلات برداشت کیں اور اب 40 سال بعد افغانستان میں امن کے قیام کا موقع ہاتھ آیا ہے،اس وقت افغانستان میں کوئی جنگ نہیں ہو رہی ہے اورچار دہائیوں بعد ایسا ہو رہا ہے،
ان حالات میں بین الاقوامی برادری کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جن لوگوں نے 40 سال تک مشکلات جھیلیں ہیں اور اب جب غیر ملکی فوجیں افغانستان سے چلی گئی ہیں،وہ اس کے نتائج سے صرف نظر کرتے ہوئے افغانستان کو ایسے نہیں چھوڑ سکتےکہ افغانستان کے لوگ ایسے حالات میں کیسے گزر اوقات کریں گے
کیونکہ جب 1989 میں سوویت فوجیں افغانستان کو خیر باد کہہ گئیں اور دیگر نے بھی یہی کیا جس کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جس میں دو لاکھ افغان مارے گئے اور ملک میں ایک اضطرابی کیفیت تھی اور اس افراتفری میں طالبان نے جنم لیا اور اب 20 سال بعد اگر ایک بار پھر سب افغانستان کو چھوڑ جاتے ہیں تو افغانستان کے چار کروڑ عوام کو بدترین انسانی بحران کا سامنا ہو گااور اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر افغانستان میں بحران پیدا ہوتا ہے تو ممکن ہےکہ وہی حالات پیدا ہو جائیں جو 20 سال قبل پیدا ہوئے تھےجب امریکی فوجی افغانستان میں داخل ہو گئے تھےاگر بحران پیدا ہوتا ہے تو اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہےاس لیے عالمی برادری کو صرف اور صرف وہاں چار کروڑ انسانوں کے بارے میں سوچنا چاہیےچاہے انہیں طالبان حکومت پسند ہے یا نہیں اس بات کی ثانوی اہمیت ہونی چاہیے
،افغانستان کے عوام کی فلاح پہلی ترجیح ہونی چاہیےانہیں اس وقت بد ترین انسانی بحران کا سامنا ہے اور انہیں جتنا جلد ممکن ہو سکے امداد کی ضرورت ہے۔وزیراعظم نے چین کے عوام کو نئے قمری سال پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ میری توقع ہے کہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے ہوں جو دونوں ملکوں کیلئے باہمی طور پر فائدہ مند ہوں،ہم پاکستان میں معیشت کو بہتر بنانے اور لوگوں کی فلاح کے ساتھ ساتھ انہیں غربت سے نکالنے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں ہم پہلے ہی چین کے تجربات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ایک چیز جس کا میں ذکر کرنا بھول گیا وہ یہ ہے کہ ہم چین سے سیکھنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے بڑے بڑے شہر کیسے تعمیر کیے ہیں چین میں بہت بڑے بڑے شہر ہیں اور جس طرح انہوں نے بڑے شہروں کے مسائل حل کیے ہیں میری مراد فضائی آلودگی اور کچرے وغیرہ سے نمٹنے سے متعلق ہے،
اس حوالے سے ہم ان سے سیکھنا چاہتے ہیں ایک بڑے شہر میں ان چیزوں کے انتظامات کرنا ایک سائنس ہے،بد قسمتی سے ہمارے شہر بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں،پاکستان میں شہروں کے پھیلاؤ کا رحجان سب سے زیادہ ہےہم چین سے یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ شہری ترقی کے حوالے سے انہوں نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں اسکیئنگ کے لئے موزوں علاقے ہیں، پاکستان میں اس کھیل پرتوجہ نہیں دی گئی، گلگت بلتستان اورخیبرپختونخوا میں اسکیئنگ کے کھیل پر توجہ دے رہے ہیں، چین کے ساتھ مل کر اسکیئنگ کے کھیل پر توجہ دی جاسکتی ہے۔