پاکستان اور چین کے درمیان چودہ ارب ڈالرز کی تجارت میں امپورٹ بارہ اور ایکسپورٹ دوارب ڈالرزکی ہے، ملک شاہد سلیم کا اے پی پی کو انٹرویو

252
چین اور پاکستان کی کمپنیاں تجارت میں تعاون کو فروغ دیں گی، چا چی جیانگ

راولپنڈی ۔ 13 جنوری(اے پی پی)راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدرملک شاہد سلیم نے کہاہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان چودہ ارب ڈالرز کی تجارت ہو رہی ہے جس میں امپورٹ 12 ارب اور ایکسپورٹ 2ارب ڈالرزکی ہے۔ ملک سے ستاون اقسام کی اشیاءکو بڑھاکر اب 313 اقسام کردی گئی ہیں جن کی ایکسپورٹ ہونے سے ان میں پانچ فیصد ڈیوٹی عائد ہوگی جس کے بعد تجارت میں 2 ارب ڈالرز کا اضافہ ہوگا،چین کے ساتھ اندرونی مسائل کی وجہ سے بعض اشیاءکی قمیتوں کو سمجھوتہ نہیں کر سکے مگر اشیاءکی اقسام بڑھنے سے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوگا،حکومت کا سارا فوکس روائتی5 اقسام کی تجارت پر ہے مگر ہم نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت میں غیر روائتی اقسام کو بھی شامل کیا جائے ۔ان خیالات کا اظہار آر سی سی آئی کے صدر ملک شاہد سلیم نے "اے پی پی”کوخصوصی انٹرویودیتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا ہے کہ سی پیک فیز ٹو میں داخل ہوچکا ہے اس سے پہلے سڑک اور پاور پلانٹ کی تعمیر تھی جس کا پرائیویٹ سیکٹر سے کوئی تعلق نہیں تھا،پنڈی چیمبر ہمیشہ کوئی بھی منصوبہ جو ملکی معیشت کی بہتری کے لئے ہو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں،ہم نے حکومت اورمشیر تجارت عبد الرزاق داود کے سامنے دو تین چیزیں رکھی ہیں کہ چین کو جو اشیاءکی اقسام پاکستان کے لئے چاہیں وہ صرف اور صرف 57 آئٹمز تھے اور ان پر چین میں ڈیوٹی بھی کم تھی، سی پیک فیز ٹو میں سب سے اہم چیزیہ ہونی چاہیے کہ چائنا بھی پاکستان سے چیزیں لے جس سے ایکسپورٹ بڑھے گی تب جاکر درآمد اور بر آمد میں توازن پیدا ہوگا،ابھی دونوں ممالک کے درمیان تجارت 14 ارب ڈالرز کی ہے ،اس میں 12ارب ڈالرز چین سے منگواتے ہیں اور دو ارب ڈالرز کی مصنوعات پاکستان وہاں بھیجتا ہے۔حکومت کو تجویز دی ہے کہ ایکسپورٹ کو بڑھائیں جس کے بعد دوماہ ہم نے اس پر کام کیا اور حکومت نے چین سے بات کر کے اشیاءکی اقسام کو بڑھاکر اب تین سو تیرہ اقسام کردی گئی ہیں،یہ اقسام جب پاکستان سے ایکپسورٹ ہوں گی تو ان میں پانچ فیصد ڈیوٹی عائد ہوگی اور یہ وہی ڈیوٹی ہے جو باقی ملکوں سے چائنا نے اپلائی کر رکھی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ سی پیک میں راولپنڈی چیمبر کا یہ سب سے اہم کردار یہ ہے کہ سب سے پہلے ہماری کوشش یہی ہوگی کہ ملک سے ایکسپورٹ میں دوارب ڈالرز میں اضافہ ہوکر چار ارب تک پہنچے۔انہوں نے بتایا ہے کہ چین حکومت کی طرف ایک وفد آیا تھا اور ان کی مرضی کے مطابق ہم اپنی مصنوعات کی قیمتیوں کاتعین نہیں کرسکے کیونکہ اندرونی مسائل کی وجہ سے جوقیمتیں وہ بتا رہے تھے ان پر سمجھوتہ نہیں کر سکے،دوسری کوشش یہ ہے کہ جو اقسام چین بھیجی جارہی ہیں ان کی تعداد بھی آٹھ سو تک پہنچ جائے۔ہمیں ایکسپورٹ کی تعداد بڑھانی ہے جس کے بعد کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوگا۔اس وقت ہماری حکومت کا سارا فوکس اس بات پر ہے کہ جو روائتی5 اقسام جن میںیکسٹائل،چاول،سرجیکل،سپورٹس وغیرہ ہیں ان کی تجارت ہو مگر ہم چاہتے ہیں کہ تجارت میں غیر روائتی اقسام کو بھی شامل کیا جائے جس میں فارماسیوٹیکل،جیولری،پولٹری سیکٹرز،حلال میٹ اور پینٹ کی صنعت پر زیادہ توجہ دی جائے۔انہوں نے کہا ہے کہ مشینری اور خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی کی شرح میں کمی لائے جائے تاکہ مقامی صنعت کو فروغ مل سکے۔ راولپنڈی اسلام آباد میں جدید ایکسپو سنٹر قائم کیا جائے۔ہماری تجویز ہے کہ پرانے ایئر پورٹ کو ایکسپو سنٹر بنایا جائے۔ مقامی صنعت کے فروغ کے لیے بجلی اور گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔روات انڈسٹریل اسٹیٹ کے لیے گرڈ اسٹیشن فراہم کیا جائے کاروباری لاگت کم کرنے کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح کم کی جائے۔ حکومت پیداواری لاگت میں کمی لائے، غیر روایتی شعبوں میں سرمایاکاری بڑھانے کے لیے سہولتیں فراہم کرے اور نئی منڈیاں تلاش کرکے برآمدی اہداف پورے کرنے کے لیے تجارتی پالیسی فریم ورک پر نظر ثانی کی جائے۔ معیشت کو دستاویزی شکل دیئے بغیر ملکی اقتصادی صورتحال بہتر نہیں ہو سکتی، امپورٹ اور ایکسپورٹ کے حوالے سے واضح پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے ، تاجر برادری بنیادی سٹیک ہولڈر ہے، پالیسی سازی اور مشاورتی عمل میں چیمبر آف کامرس کو اعتماد میں لیا جائے ، پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں پڑوسی ممالک کے مقابلے میں کاروباری لاگت میں اضافہ ہوا ہے جس سے درآمدات میں اضافہ ہو تا چلا گیا، ادائیگیوں میں عدم توازن، ری فنڈز میں تاخیر، بجلی مہنگی ہونے، بنیادی ڈھانچے کی کمی اور ٹیکسوں کی بھر مار سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے ہمیں مقامی صنعت کی بحالی، اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے فروغ کے لیے مراعات دینا ہوں گی ، ٹیکسٹائل کا شعبہ ملکی برآمدات کا 60فی صد حصہ دار ہے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بحالی کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے نرم شرائط پر قرضے دئیے جائیں اور مشینری پر ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میںچھوٹ دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں نئی منڈیاں بھی تلاش کرنا ہوں گی علاقائی تجارت کے فروغ کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں وسطی ایشیائی ملکوں میں پاکستانی مصنوعات کی مانگ بڑھ رہی ہے۔