واشنگٹن۔31جنوری (اے پی پی):امریکا میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے کہا ہے کہ موجودہ پاکستانی حکومت ملک کے جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے اور اس کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئےپرعزم ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز واشنگٹن میں ایک اجتماع سے خطاب کے دوران پاکستان میں اقتصادی بحالی اور سرمایہ کاری کے منافع بخش ماحول کو اجاگر کرتے ہوئے چند اہم اشاریوں کی طرف اشارہ کیا جس میں افراط زر میں نمایاں کمی شامل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ نتیجہ حکومت کی موثر اقتصادی پالیسیوں کا ثبوت ہے۔ وہ ’’ایمبیسڈر انسائیڈر سیریز‘‘ کے تحت تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ یہ پروگرام جو کو سفیروں سے ملنے اور ان ممالک کے بارے میں جاننے مواقع فراہم کرتا ہے جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔ اس سیریز کی میزبانی ماہانہ اخبار واشنگٹن ڈپلومیٹ کرتا ہے۔
تقریب میں امریکی تھنک ٹینک کمیونٹی کے ارکان، کیپٹل ہل کے عملے، ماہرین تعلیم، سول سوسائٹی اور میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔ انہوں نے پاکستان کے ابھرتے ہوئے ٹیک سیکٹر پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان دنیا بھر میں امریکا کے بعد آئی ٹی فری لانسنگ میں دوسرا سب سے بڑا تعاون کرنے والا ملک ہے ۔ انہوں نے پاکستان کی لاگت اور معیار کی مسابقت کو اجاگر کیا جو اسے آئی ٹی آؤٹ سورسنگ کے لئے ایک مثالی پارٹنر بناتا ہے۔پاکستانی سفیر نے کہا کہ امریکا اور پاکستان کے تجارتی تعلقات مضبوط ہیں،امریکا پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ تجارت ہمارے دوطرفہ تعلقات کا سب سے مستحکم پہلو رہا ہے۔
بطور سفیر ان کی اولین ترجیح اقتصادی سفارت کاری کو وسعت دینا اور تجارتی روابط کو مضبوط بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مینوفیکچرنگ بالخصوص کھیلوں کے سامان اور آلات جراحی میں مسابقتی برتری حاصل ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ماضی کے زرمبادلہ کے چیلنجز سے بچنے کے لئے برآمدات پر مبنی اور خود کفیل سرمایہ کاری پر توجہ دے رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم معیاری سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں جو خود کا اپنا ریونیو سائیکل پیدا کرے ۔ انہوں نے سی پیک کو چین کو خلیج فارس اور افریقی منڈیوں سے جوڑنے والا ایک تبدیلی کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے امریکی کمپنیوں کو پاکستان کی تجارتی ترغیبات تلاش کرنے کی ترغیب دی۔
انہوں نے پراکٹر اینڈ گیمبل، پیپسی کو اور نیسلے جیسی ملٹی نیشنل کارپوریشنز کی مثالیں پیش کیں جو پاکستان کی اقتصادی صورتحال میں بہتری سے مستفید ہو رہی ہیں۔ پاکستانی سفیر نے علاقائی سلامتی پر خدشات کو دور کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی ثابت قدمی کا اعادہ کیا اور کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف برسر پیکا ر صف اول کے ممالک میں شامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی دہشت گردی کا شکار ہے۔ انہوں نے افغان جنگ کے دور سے عسکریت پسندی کی باقیات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنی غیر محفوظ سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لئے کوششیں کر رہا ہے۔
پاکستانی سفارت خانے کی پریس ریلیز کے مطابق پاکستانی سفیر نے اہم امریکی پالیسی سازوں کے ساتھ بات چیت کی ہے اور حالیہ ہفتوں میں امریکی کانگریس کے کم از کم 40 اراکین سے ملاقات کی ہے،جن میں خواتین اراکین بھی شامل ہیں ۔ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ پاکستانی سفیر کی رسائی کی کوششیں دوبارہ منتخب ہونے والے امریکی نمائندوں کے ساتھ دوبارہ روابط قائم کرنے اور پاکستان اور امریکا کے درمیان دیرینہ تعلقات کو بڑھانے کے لئے نئی شراکتیں بنانے پر مرکوز ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان کے امریکا اور چین کے درمیان بائنری مقابلے میں پھنس جانے کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک دو عالمی طاقتوں کے درمیان پل کا کام کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے بھی دوچار ہے، انہوں نے ملک کو اس رجحان کے خلاف عالمی جنگ میں صف اول میں شامل ریاست کے طور پر بیان کیا بالکل اسی طرح جیسے یہ ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان عالمی مالیاتی اداروں جیسے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے کی حکمت عملی پر فعال طور پر کام کر رہا ہے، جو کہ رد عمل کے رد عمل سے ہٹ کر موسمیاتی موافقت کی طرف بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے لئے عالمی بینک کے 10 سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے اور صنفی شمولیت کی بحالی کی کوششوں پر بھرپور توجہ شامل ہے جس میں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ غیر متناسب طور پر متاثر ہونے والی خواتین اور لڑکیوں کو ٹارگٹڈ سپورٹ حاصل ہو۔