وزیراعظم نے حققیت پسندانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے ایک نئی مثال قائم کی ، پاکستان اپنے مفادات کے ساتھ کھڑا ہوگا ،کسی کیمپ کا حصہ نہیں ہیں، مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف

118

اسلام آباد۔13اکتوبر (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے حققیت پسندانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے ایک نئی مثال قائم کی ہے جس کے تحت پاکستان اپنے مفادات کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ ہم کسی کیمپ کا حصہ نہیں ہیں، دنیا کو بتا دیا ہے کہ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں، چین کے ساتھ اپنے تعلقات کے باوجود امریکہ کے ساتھ بھی بہت اچھے تعلقات خواہاں ہیں، پاکستان کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کا محل وقوع ہے، اب ہم جیو اکنامکس پر زیادہ جامع توجہ دے رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے دنیا کو امن، ترقی اور سرمایہ کاری میں شراکت کی دعوت دیتے ہیں،

عالمی برادری کو کسی بڑے انسانی بحران یا بدامنی کی صورتحال کو پیدا ہوئے سے روکنے کے لئے افغانستان کے ساتھ مصروف عمل ہونے کی ضرورت ہے۔ "گلوبل سپیس ویلیج” کو اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں پچھلے 20 سالوں سے صورتحال کچھ ایسی تھی کہ ایک ناقابل فہم جنگ شروع کی گئی اور کوئی چاہتا تھا کہ پاکستان ان کے لیے یہ جنگ جیتے جو کہ محض ایک غیر حقیقی مقصد تھا۔

وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو جن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ان میں سے ایک ان کی جانب سے نئی مثال اور نیا نقطہ نظر دینا ہے جس کے تحت پاکستان اپنے قومی مفادات کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ اس پر بہت سے لوگوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن پاکستان اب بیسز ( اڈوں )کی میزبانی نہیں کرے گا، یہی سچ ہے، میں ایک ایسی تبدیلی کا خواہشمند رہا ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم ایک عزت دار قوم ہیں، ہم نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ ہم اس کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔

ہم کسی کیمپ میں نہیں ہیں، ہم چین کے ساتھ اپنے تعلقات کے باوجود امریکہ کے ساتھ بھی بہت اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تعلقات افغانستان، بھارت یا چین کے تناظر میں نہیں بلکہ دو طرفہ نوعیت کے ہونے چاہئیں جو برابری اور باہمی مفادات پر مبنی ہوں، اس حوالے سے ابھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر معید نے کہا کہ اگر کوئی ایسی صورتحال ہوئی جسے پاکستان نے محسوس کیا کہ یہ اس کے مفاد میں نہیں ہے تو ہم اس کے لئے نہیں جائیں گے اور اس ضمن میں آگے بڑھنے میں مشکلات پیش آئیں تو انہیں دور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں عوام کو اعتماد میں لیے بغیر فیصلے کیے گئے جن کا نقصان ہوا۔

اب موجودہ وزیر اعظم نے صرف امریکہ نہیں بلکہ ہر ملک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نئی مثال تشکیل دی ہے۔ افغانستان میں رونما ہونے والی اچانک تبدیلی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں معید یوسف نے کہا کہ میرے خیال میں یہ سب کے لیے غیر متوقع تھی، حتیٰ کہ خود طالبان کے لئے بھی کہ صرف 12 یا 14 دنوں میں ملک ان کے قبضہ میں آگیا۔ انہوں نے کہا کہ 20 سال سے پاکستان اس پر زور دیتا رہا ہے کہ یہ جنگ عسکری طور پر نہیں جیتی جا سکتی، افغانستان کی اس حوالے سے ایک تاریخ ہے اور اسی لیے طالبان سے بات کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ یہ اس مسئلے کو حل کرنے کا واحد راستہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کو کسی بڑے انسانی بحران یا بدامنی کی صورتحال کو پیدا ہوئے سے روکنے کے لئے افغانستان کے ساتھ مصروف عمل ہونے کی ضرورت ہے، پاکستان قریبی پڑوسی ملک ہونے کی حیثیت سے افغانستان میں امن و استحکام کا سب سے بڑا حامی ہے کیونکہ وہاں کے حالات کا اثر پاکستان پر بھی آتا ہے۔ ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کہہ رہا ہے کہ اس کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کا محل وقوع ہے، اسے جیو اسٹریٹجک حیثیت سے بروئے کار لایا گیا ہے اور آئندہ بھی لایا جاتا رہے گا لیکن اب ہم جیو اکنامکس پر زیادہ جامع توجہ دے رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے دنیا کو امن، ڈویلپمنٹ اور انویسٹمنٹ میں شراکت کی دعوت دیتے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کا نقطہ نظر بہت زیادہ واضح ہے۔ہم کسی کیمپ میں نہیں ہیں اور ہر ایک کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، میں نے نہیں سنا کہ امریکہ نے ‘امریکہ یا چین’ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا کہا ہو۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات پر کوئی دو رائے نہیں لیکن ہم امریکہ اور دوسرے ممالک کو خطے میں بہت سے طریقوں سے مدد کر سکتے ہیں اور یقینا ان کے سرمایہ کاری سے استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

بھارت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں غیر قانونی تسلط قائم کر رکھا ہے اور بے گناہ لوگوں کے وحشیانہ قتل عام میں ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتا ہے اور ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں افغانستان میں انسانی حقوق کے متعلق شور بپا ہے لیکن بھارتی غیر قانونی مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کوئی بات نہیں ہوتی، کیا کشمیری عوام انسان نہیں ہیں۔ کشمیری عوام پر بھارتی مظالم کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور انہیں ان کا جائز حق خود ارادیت ملنا چاہیے۔