اسلام آباد ۔ 18 اگست (اے پی پی) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کی معاشی اصلاحات کے ایجنڈے نے میرین سیکٹر کے وسائل کو کامیابی کے ساتھ متحرک کیا ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کی طرف سے شائع ہونے والی پی ٹی آئی حکومت کی دو سال کی کارکردگی رپورٹ کے مطابق جب موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی تو وزارت بحری امور ایک نظرانداز کیا ہوا شعبہ تھا اور گزشتہ ادوار میں سمندری وسائل کی صلاحیتیں استعمال نہیں کی گئیں۔موجودہ حکومت کے وژن میں اہم مقاصد میںیہ بات شامل تھی کہ سمندری وسائل کو زیادہ سے زیادہ تلاش کریں، گوادر سی پورٹ کو چلائیں، کاروباری برادری کو مراعات کے معاہدے کے مطابق گوادر بندرگاہ کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور جہاز رانی کی صنعت کے فروغ کے لئے پالیسی مرتب کی جائے۔وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سال 2020ءکو ”بلیو اکانومی کا سال“ قرار دیا گیا ہے۔ وزارت بحری امور نے 2001ءکی مرچنٹ میرین پالیسی میں ترمیم کرکے 2019ءمیں شپنگ سیکٹر میں 2020ءسے لے کر 2030ءتک ٹیکس مراعات میں توسیع کرکے جہاز رانی کو ایک اسٹریٹجک سیکٹر قرار دیا ہے۔اس پالیسی کے تحت چھوٹ کی مدت کے دوران کوئی بھی وفاقی ٹیکس پاکستان ریذیڈنٹ شپ کی کمپنیوں پر براہ راست اور بالواسطہ عائد نہیں ہے۔ جون 2030ءتک ویسلز کی خریداری پر سیلزٹیکس، کسٹم ڈیوٹی اور ایڈوانس انکم ٹیکس میں چھوٹ ہے۔ پاکستان کے پرچم والے جہازوں کو تمام پاکستانی بندرگاہوں پر فرسٹ برتھ کا حق حاصل ہوگا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے طویل مدتی فنانس سہولت / اسلامی لانگ ٹرم فنانس سہولت کے تحت شپ فنانسنگ کی اجازت دی ہے ۔وفاقی حکومت نے ڈیٹا اکٹھا کرنے کا طریقہ کار تیار اور نافذ کیا اور بین الاقوامی ماہی گیری کے اداروں ،فوڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن،انڈین اوشین ٹونا کمیشن ، ایشیاءپیسفک میں نیٹ ورک آف ایکواکلچر سنٹرز اور انفوفش کے ساتھ اشتراک کیا ، ورکشاپ ، سیمینارز میں مقالے پیش کیے گئے ۔ملک میں پہلی بار بین الاقوامی ماہی گیری کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا جس میں تقریباً15ممالک نے شرکت کی ۔پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (پی این ایس سی) نے حال ہی میں آپریشنل معاملات کی استعداد بڑھانے اور لاگت کم کرنے کے لئے ڈاناوس انٹرپرائز کو انٹرپرائزز ریسورس پلاننگ (ای آر پی) کا کنٹریکٹ دیا ہے۔ای آر پی نومبر 2020 تک تمام جہازوں کو ہیڈ آفس سے جوڑ دے گا۔ موجودہ حکومت کے تحت پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن نے 4.7 ارب روپے مالیت کے قرضوں کی ادائیگی کی۔ پی این ایس سی نے میننگ کمپنی بھی قائم کی ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) اب بڑے کنٹینر ویسلز کو سنبھالنے کے لئے تیار ہے۔ حکومت نے پورٹ قاسم اتھارٹی میں دو ایل این جی ٹرمینلز کے قیام کی بھی منظوری دے دی ہے۔