اسلام آباد۔16جون (اے پی پی):سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر افتخار علی ملک نے کہا ہے کہ پاکستان علاقائی اور ہمسائیہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دے کر معاشی استحکام کی منزل حاصل کر سکتا ہے۔ اتوار کو یہاں مسلم خان بونیری کی قیادت میں تاجروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان اہم تجارتی مقام کی وجہ سے پاکستان علاقائی تجارتی مرکز کے طور پر کام کرنے کے لیے اسٹریٹجک پوزیشن میں ہے۔
اس صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے پاکستان کو چین، ایران اور افغانستان جیسے ممالک کے ساتھ فعال طور پر تجارتی سرگرمیوں میں شامل ہونا چاہیے۔ سی پیک ایک انتہائی اہم اقدام ہے اس سے تجارتی تعاون کی راہ ہموار ہونے کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور تجارتی بہائو میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہمسائیہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دے کر سیاسی چیلنجز کے باوجود بے پناہ اقتصادی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ تجارت کو معمول پر لانے اور ٹیرف میں کمی پر توجہ دے کر خطے کی ایک ارب سے زائد آبادی کی مارکیٹ تک پہنچنے میں مدد مل سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ توانائی کے وسائل سے مالا مال ایران ایک اور امید افزا تجارتی شراکت دار ہے۔ ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط بنا کر پاکستان انرجی سکیورٹی کو یقینی بنا سکتا ہے جبکہ ایران کو انتہائی اہم اقتصادی تنوع فراہم کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان وسطی ایشیا کے لیے تجارت اور ٹرانزٹ کا اہم راستہ ہے جس سے علاقائی روابط میں سہولت حاصل ہو سکتی ہے۔
تاہم ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو محتاط رہنا ہوگا تاکہ مغربی ممالک کے ساتھ اس کے تجارتی تعلقات متاثر نہ ہوں۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل اور زرعی برآمدات کے لیے یورپی یونین اور امریکہ بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ ان تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے بین الاقوامی تجارتی معاہدوں، ضوابط اور معیارات کی تعمیل اور مستحکم کاروباری ماحول کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔افتخار علی ملک نے کہا کہ پاکستان کی تجارتی حکمت عملی کثیر جہتی ہونی چاہیے تاکہ مغربی تجارتی شراکت داری کو برقرار رکھتے ہوئے علاقائی تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جا سکے۔
اس کے لیے سفارتی مہارت، مضبوط اقتصادی پالیسیوں اور علاقائی استحکام کی ضرورت ہے۔ اچھی پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کر کے پاکستان علاقائی تجارت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، معاشی ترقی کو آگے بڑھا سکتا ہے اور نہ صرف ملکی بلکہ پورے ایشیا کی ترقی و خوشحالی میں کردار ادا کر سکتا ہے۔