پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں سارک کے بائیوایتھکس یونٹس کا ورچوئل اجلاس

126

اسلام آباد۔4نومبر (اے پی پی):سارک کے بائیوایتھکس یونٹس کا ایک ورچوئل اجلاس پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) میں منعقد ہوا۔ اس تقریب کا موضوع "صحت کی دیکھ بھال میں امتیازی سلوک اور نفرت کو دور کرنا” تھا جو انسانی حقوق کے عالمی آرٹیکل کے آرٹیکل 11 کے تحت زیر بحث آیا۔ اس تقریب نے جنوبی ایشیا کے ماہرین کو یکجا کیا تاکہ صحت کی سہولیات میں مسائل کو حل کیا جا سکے۔

ڈاکٹر پرنسلی لوئیس نے افتتاحی تقریر میں تمام سارک بائیوایتھکس یونٹس کے سربراہان کا شکریہ ادا کیا اور ایجنڈا پیش کیا۔ آسٹریلیا سے پروفیسر رسل ڈی سوزا جو ایشیا پیسیفک ڈویژن کے سربراہ اور بین الاقوامی چیئر ان بائیوایتھکس ہیں، نے تمام یونٹس کے سربراہان کو خوش آمدید کہا۔

انہوں نے بائیوایتھکس کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بائیوایتھکس نہ صرف طبی و سائنسی بلکہ سماجی علوم، قانون اور ہیومینٹیز کے درمیان اہم مقام رکھتا ہے اور اب یہ مختلف شعبہ جات جیسے کہ جینڈر سٹڈیز، تنقیدی نظریہ، سلوک کی معیشت اور سماجی انصاف کے فریم ورک سے استفادہ حاصل کر رہا ہے۔

انہوں نے بائیوایتھکس اور طبی ہیومینٹیز میں بین الاقوامی سطح پر تعلیم، جدت، کلینکل اطلاق اور فکری قیادت کے ذریعے ترقی کی ضرورت پر زور دیا۔پروفیسر میری میتھیو نے صحت کی سہولتوں میں امتیازی سلوک پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ بدنامی ایک طاقتور سماجی عمل ہے جس میں لوگوں کو لیبل لگانا، دقیانوسی تصورات کا اطلاق کرنا اور الگ تھلگ رکھنا شامل ہے جس کے نتیجے میں ان کی سماجی حیثیت کم ہوتی ہے۔

انہوں نے خاص طور پر جذام جیسے امراض کے مریضوں کی بدنامی کے بارے میں بات کی اور کہا کہ ایسے مریضوں کے ساتھ سماجی دوری، نفرت، اور معاشرتی تعاون کی کمی جیسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔صدر پی ایم ڈی سی پروفیسر رضوان تاج اور پاکستان چیپٹر کے بائیوایتھکس یونٹ کے سربراہ نے اپنے پیغام میں کہا کہ صحت کی سہولتوں میں ناپسندیدگیاور بدنامی کا پھیلائو اور اس کے منفی اثرات صحت پر مرتب ہوتے ہیں اور اس کے حل کے لیے چند مداخلتیں دستیاب ہیں۔

آرٹیکل 11 اس بات پر زور دیتا ہے کہ صحت کی دیکھ بھال کے مراکز میں امتیازی سلوک کو کم کیا جائے تاکہ معیار کو بہتر کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ بطور ذہنی صحت کے ماہر، وہ جانتے ہیں کہ ناپسندیدگی یا بدنامی نہ صرف مریض بلکہ ان کے خاندان پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور صحت کی سہولتوں کی پالیسیوں پر بھی اس کے اثرات ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بدنامی کو کم کرنے سے صحت کی سہولتوں کا ماحول اور فراہم کردہ دیکھ بھال کا معیار بہتر ہو سکتا ہے۔سری لنکا اور نیپال کے سربراہان نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ہمیں صحت کی مخصوص حالتوں، جیسے کہ ذہنی صحت یا ایچ آئی وی کے بارے میں گفتگو کرتے وقت اپنے الفاظ کا خیال رکھنا چاہیے۔

اس تقریب کا اختتام ایک متفقہ عزم کے ساتھ ہوا کہ ایک ایسا ماحول تشکیل دیا جائے گا جہاں ذہنی صحت، جیسے ڈپریشن، اینزائٹی، ٹی بی، ایچ آئی وی، جلدی امراض اور دیگر عام بیماریوں کا ذکر اسی طرح قابل قبول ہوگا جیسے ذیابیطس یا ہائپرٹینشن پر گفتگو کی جاتی ہے۔