پاکستان میں ای ویسٹ سے نمٹنے کے لئے ٹھوس پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، ماہرین

83

اسلام آباد۔5اگست (اے پی پی):کامسیٹس یونیورسٹی کے تحت منعقدہ ای ویسٹ مینجمنٹ کانفرنس میں انکشاف کیا گیاہے کہ دنیا میں ہر سال 53ملین ٹن ای ویسٹ پیدا ہو رہاہے،چین نے ای ویسٹ سے ایک ٹن سونا نکالا ہے ۔تفصیلات کے مطابق کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد میں ای ویسٹ مینجمنٹ پر پالیسی ڈائیلاگ کا انعقاد ہوا جس کے لئے محکمہ موسمیات کے ڈاکٹر جابرسید اور چائنہ سٹڈی سنٹر کے انچارج ڈاکٹر طاہر ممتاز اعوان کی معاونت شامل تھی۔اس موقع پر با ت کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر سجاد احمد مدنی نے کہا کہ 2022 میں ای ویسٹ کے لائیو کاؤنٹر کے مطابق 9 ملین ٹن سے زیادہ برقی اشیاء کو ٹھکانے لگایا جا چکا ہے۔ انہوں نے 3R کے استعمال اور مصنوعات کو پھینکنے کی بجائے مینوفیکچررز کو واپس کرنے کی سفارش کی۔

کامسیٹس یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر جابر سیدنے ای ویسٹ کے بارے میں جائزہ پیش کیا جس میں وہ تمام الیکٹرانکس پرزے شامل ہیں جو اب استعمال نہیں ہو رہے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق ہر سال 53 ملین ٹن ای ویسٹ پیدا ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چین نے 2019 میں سالڈ ویسٹ پر پابندی لگا دی ہے اور ای ویسٹ سے ایک ٹن سونا نکالا ہے۔ انہوں نے اپنے تحقیقی عمل کے نمونے لینے کی پوری حکمت عملی کے بارے میں بات کی اور ای ویسٹ سے نمٹنے کے لیے ان کے ذریعے استعمال کئے جانے والے طریقہ کارپر روشنی ڈالی۔

موسمیاتی تبدیلی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر ضیغم عباس نے مینا مٹا کنونشن اور باسل کنونشن پر بات کی اور کہا کہ ہمیں ای ویسٹ سے قیمتی دھاتیں نکالنی چاہئیں۔ انہوں نے پاکستان کے کچھ شہروں میں ای ویسٹ کو کھلے عام جلانے کی نشاندہی کی اور بتایا کہ ای ویسٹ کو مناسب طریقے سے ہینڈل کرنے،بین الاقوامی کنونشنز کی تعمیل اور عام لوگوں میں بڑے پیمانے پر بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ای ویسٹ سے نمٹنے کے لئے بنائی گئی پالیسی پر عمل درآمد کے لیے موزوں ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر طاہر وسیم نے میڈیا،اکیڈمیہ اور انڈسٹری کے درمیان روابط کو بڑھانے اور طلباء کو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لئے وظائف کی تجویز دی۔ لنکاسٹر یونیورسٹی، برطانیہ کے پروفیسر کیون سی جونز نے ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے سیشن میں شرکت کی اور کہا کہ پاکستان میں ای ویسٹ کو درست طریقے سے سنبھالا نہیں جاتا ہے جو کہ ای ویسٹ کا دوسرا بڑا درآمد کنندہ ہے۔

بحریہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عاشق محمد نے ای ویسٹ مینجمنٹ کی پالیسی بنانے کے عمل میں خامیوں کی نشاندہی کی جن میں تکنیکی مہارت کی کمی اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان شامل ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سہیل یوسف نے کہا کہ ای ویسٹ ماحولیاتی تبدیلیوں میں بہت زیادہ کردار ادا کر رہا ہے اور پاکستان نے ابھی تک امریکہ، جاپان اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک سے سیکھتے ہوئے کوئی مناسب پالیسی تیار نہیں کی ہے۔

پاکستان مشن سوسائٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے صائمہ ولیم نے پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ ایک نظرثانی شدہ پالیسی بنائیں اور ای اور دیگر خطرناک کچرے سے نمٹنے کے لئے جامع حل فراہم کریں۔

اس موقع پرسپارکو کے مینیجر ڈاکٹر حسین حیدر رضوی، جمیل اصغر بھٹی، ای ویسٹ مینجمنٹ کے سی ای او شہباز گل اعوان،اسلامی یونیورسٹی کے ڈاکٹر ظفیر ثاقب،عمار جعفری اور کامسیٹس یونیورسٹی کے شعبہ ORICکے سربراہ پروفیسر شاہد اے خان نے بھی خطاب کیا جبکہ پروفیسر ڈاکٹر پیرہان کرت کاراکس، بسرہ ٹیکنیکل یونیورسٹی، ترکی نے ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے شرکت کی۔ سیشن کے اختتام پر مقرین اوردیگر شرکاء میں یادگاری شیلڈز تقسیم کی گئیں۔