پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی کے حامل آبپاشی کے نظام کا تناسب 0.1 فیصد ہے ، رپورٹ

138

اسلام آباد۔25نومبر (اے پی پی):پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی کے حامل آبپاشی کے نظام کا تناسب 0.1 فیصد ہے ، کاشتکار طبقہ جدید ٹیکنالوجی کے حامل آبپاشی کے نظام کی دیکھ بھال کے اخراجات اور چوری کے خدشات کی وجہ سے اس جدید نظام سے استفادہ کے حوالہ سے ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ محکمہ زراعت پنجاب کے ’’آن فارم واٹر مینجمنٹ ‘‘ کے سابق ڈائریکٹر جنرل چوہدری محمد اشرف نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں ہائی ایفیشنسی ایری گیشن سسٹمز (ایچ ای آئی ایس) سے استفادہ کی شرح انتہائی کم ہے اور صرف چند ہزار ہیکٹر رقبہ ایچ ای آئی ایس سے سیراب کیا جاتا ہے ، جو ملک میں آبپاش رقبے کا صرف 0.1 فیصد بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران میں ایچ ای آئی ایس کی شرح 24 فیصد، ترکیہ میں 38 فیصد جبکہ چین میں 13.7 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق آبپاشی کے روایتی طریقہ کی وجہ سے آبی وسائل کا نقصان ہو رہا ہے جس کے تدارک کےلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کاشتکار طبقہ کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ اور غیر ہنر مند ہونے کی وجہ سے جدید ٹیکنالوجیز سے استفادہ کی شرح کم ہے جبکہ مرمت اور مینیٹننس کے اخراجات بھی ایچ ای آئی ایس سے استفادہ کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ایچ ای آئی ایس سے استفادہ کے ذریعے فصلوں کی پیداوار میں 20 تا 100 فیصد اضافہ جبکہ کھادوں اور دیگر زرعی مداخل کے اخراجات میں 40 تا 60 فیصد تک کمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں حکومت کی جانب سے آبپاشی کی جدید ٹیکنالوجیز سے استفادہ کے حوالے سے 75 فیصد تک سبسڈی دی جا رہی ہے جو 0.2 ملین فی ایکڑ سے زیادہ ہے۔ تاہم سبسڈی کے باوجود کا شتکار طبقہ فصلوں کی آبپاشی کےلئے جدید ترین ٹیکنالوجیز کے حامل نظام سے استفادہ میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آبی وسائل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ اور زرعی شعبہ کے پیداواری اخراجات میں کمی کے ساتھ ساتھ کاشتکار طبقہ کے ذرائع آمدن اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کےلئے آبپاشی کے جدید نظام سے استفادہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس حوالے سے کاشتکار طبقہ کی تربیت اور اطلاعات تک رسائی کے ذریعے ایچ ای آئی ایس سے استفادہ کی شرح میں اضافہ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔