پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کے تسلسل کیلئے بڑے پیمانے پر عالمی فنڈنگ درکار ہے، اقوام متحدہ کے ہیومینیٹیرین ریزیڈینٹ  کوآرڈینیٹر جولین ہارنیز کی سیلاب بحالی پروگرام کے حوالہ سے مشترکہ پریس بریفنگ

81

اسلام آباد۔15دسمبر (اے پی پی):اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلئے اگر بڑے پیمانے پر فنڈنگ نہ ہوئی تو متاثرہ عوام کیلئے جاری امدادی سرگرمیاں وقت سے پہلے ہی معطل ہونے کا خدشہ ہے،اقوام متحدہ کی جانب سےنظرثانی شدہ فلڈز رسپانس پلان کے تحت  816 ملین امریکی ڈالر کی اپیل کی گئی تھی جبکہ اقوام متحدہ اور متعلقہ ایجنسیوں کو 262 ملین ڈالرز موصول ہوئے ہیں جو کہ امداد کا صرف 32.1 فیصد  ہے، سیلاب بحالی کے لئے ہمارے پاس فنڈز 15 جنوری کو ختم ہو جائیں گے ،امدادی سرگرمیوں کے تسلسل کیلئے بڑے پیمانے پر عالمی فنڈنگ درکار ہے، جنوری کے بعد صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے، دسمبر 2022 سے مارچ 2023  تک تقریباً 14.6 ملین افراد کو فوری غذائی امداد درکار ہوگی جو کہ موجودہ سال ستمبر تا دسمبر کے 8.6 ملین افراد کے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہونے کے اندازوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔

جمعرات کو یہاں سیلاب بحالی پروگرام کے حوالے سے مشترکہ پریس بریفنگ دیتے ہوئےاقوام متحدہ کے ہیومینیٹیرین ریزیڈینٹ  کوآرڈینیٹر جولین ہارنیز نے کہا کہ بلا شبہ حکومتِ پاکستان اور فلاحی اداروں نے اس سال سیلاب سے برپا ہونے والی بے پناہ تباہی کے ردِ عمل میں مثالی خدمات سر انجام دی ہیں، مگر محدود فنڈنگ کی وجہ سے تمام ضروریات کو پورا کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب تک غذائی سیکورٹی اور زرعی امداد 4 ملین مستحقین کی جگہ صرف 3.4 ملین لوگوں کو دی گئی ہے۔ صحت کی امداد 6.4 ملین کے بجائے صرف 1.8 ملین لوگوں کو دی گئی ۔ غذائی امداد 3.9 ملین کے بجائے صرف 1.5 ملین لوگوں کو دی گئی ۔

پانی، صفائی اور حفظانِ صحت کی امداد 3.4 ملین کے بجائے صرف 1.9 ملین لوگوں کو دی گئی، شیلٹر اور دیگر نان فوڈ آئیٹمز (NFIs) کی امداد 3.5 ملین کے بجائے محض 1.5 ملین لوگوں کو دی گئی ، تعلیمی امداد 7 لاکھ  کے بجائے صرف 1 لاکھ 35 ہزار افراد کو دی گئی۔ تحفظ کے حوالے سے امداد 8.5 ملین کی جگہ ٖصرف 0.99 ملین افراد کو دی گئی جبکہ زرعی و مال مویشی کی امداد سے 1 لاکھ 51 ہزار  لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مزید فنڈنگ درکار ہے تاکہ لوگ سردیاں گزار سکیں، کاشتکاری، مال مویشی اور دیگر ذرائع روزگار بحال ہوں اور دوبارہ سے گھروں اور کمیونٹیز کو آباد کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی لوگوں کی تعداد غذا اور غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو رہے ہیں جو ہمارے لیے ایک لمحہِ فکریہ ہے، ہمارے پاس متاثرہ لوگوں اور ان لوگوں کی مدد کرنے کے لیے جن تک ہماری رسائی ہے مطلوبہ فنڈز نہیں ہیں جبکہ خدشہ یہ ہے کہ مزید 1.1 ملین لوگوں کو سیلاب زدہ علاقوں میں فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے ہنگامی امداد درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ  تمام شعبہ جات میں فنڈنگ کی اشد ضرورت ہے جبکہ موجودہ امداد ضروریات کے پیشِ نظر ناکافی ہے۔

بہت سے لوگوں کو جُزوی یا صرف ایک دفعہ ہی امداد ملتی ہے۔  انہوں نے کہا کہ مزید فنڈنگ نہ ہونے کا مطلب ہے کہ لوگ بحرانی حالت میں مزید دھنستے چلے جائیں گے اور عدم تحفظ کے خطرات اور زیادہ بڑھ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انسانی فلاحی ضروریات کی طرف پائیدار توجہ درکار ہے۔ سندھ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق صوبے میں تقریباً 2 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور وہ جو لوٹ آئے ہیں بے سروسامانی کی حالت میں ہیں کیونکہ انہیں تباہ حال شیلٹر اور بنیادی خدمات کا سامنا ہے جس میں  صحت، تعلیم، پانی، صفائی اور تحفظ کا مکمل فقدان شامل ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ انسانی فلاحی ضروریات برقرار ہیں حالانکہ بحالی و از سرِ نو تعمیر کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ ہمیں قومی اور بین الاقوامی توجہ اُن حوصلہ مند انسانوں کی جانب دلانی ہے جو شب و روز بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں بہت سے بحران ہیں، اور ہر بحران اہم ہے، ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ چند علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ ناکافی امداد کی وجہ سے ہر روز بقا کی جنگ میں مصروف ہیں اور یہ پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب کے تین ماہ بعد حالات مزید بگڑ گئے ہیں اور سیلاب کے پیشِ نظر بحالی کے تمام میکانزم بے کار ہو چکے ہیں۔ مزید معاشی ابتری، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کم پیداواری صلاحیت کے ساتھ غذائی تحفظ اور بنیادی غذائیت کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ بہت سارے لوگوں کے ذرائع آمدن بشمول پیداواری اثاثے جیسا کہ مال مویشی، سیلاب کی نظر ہو چکے ہیں۔ خدشہ ہے کہ تقریبا  8.4 ملین سے 9.1 ملین تک افراد خطِ غربت سے نیچے چلے جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ خطرناک بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ محض اپنی بقا کے لئے چائلڈ لیبر اور کم عمری میں شادی کروانے جیسے خطرناک حربے استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام علاقے یکساں طور پر بحالی کی طرف گامزن نہیں ہیں، بہت سے علاقوں میں ابھی بھی پانی کھڑا ہے اور بڑے پیمانے پر نقصانات اور بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پبلک ہیلتھ ایک بڑھتا ہوا لمحہ فکریہ ہے ۔ پانی سے پھیلنے والی اور دیگر متعدی بیماریاں عروج پر ہیں کیونکہ سیلاب کی وجہ سےصحتِ عامہ بشمول پانی و صفائی کی سہولیات نا پید ہیں۔

انہوں نے کہا کہ  رہائشی نقصانات اور تباہی سے تقریباً 2 ملین گھرانے متاثر ہوئے ہیں اور یہ ازسرِ نو بحالی اور واپسی کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے جبکہ لاکھوں لوگوں کو سردی گزارنے کے لیے فوری امداد درکار ہے۔انہوں نے کہا کہ تقریباً 2.6 ملین افراد کو اشیا خوردونوش کی امداد پہنچائی گئی ہے مگر ضروریات بڑھتی چلی جا رہی ہیں، تقریباً 7 ملین بچوں کو غذائی سہولیات درکار ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی متحرک سکریننگ اور علاج گاہوں میں رپورٹ ہونے والے کیسوں کی شدت بھی یہی اشارہ کرتی ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں ناقص غذا ایک انتہائی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

 خواتین، لڑکیوں اور ٹرانسجینڈر کوجنسی استحصال و تشدد کے  خطرات لاحق ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً 20 لاکھ سے زیادہ بچے سکول نہیں جا سکتے جبکہ پاکستان میں 34,296 سکولوں کی عمارتیں سیلاب سے متاثر یا مکمل تباہ ہو چکی ہیں۔ ایسی صورت میں بچوں کے استحصال اور تشدد کے خطرات نہ صرف بڑھ گئے ہیں بلکہ انکا مستقبل بھی غیر محفوظ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً  ایک لاکھ 35 ہزار بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں بحال کر دی گئی ہیں جن میں 750 سے زائد عارضی درسگاہیں شامل ہیں۔

غیر سرکاری تنظیم سیو دی چلڈرن کی نمائندہ عنبرین نیازی نے صحت کے معاملات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں ہر 24 گھنٹے میں بنیادی مرکز صحت اور تربیت یافتہ سٹاف ایک محفوظ پیدائش کو یقینی بنا رہا ہےجبکہ ان مراکز پر ایک ایمبولینس سروس ہر وقت موجود ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ان خواتین تک بھی پہنچ سکیں جن کو ان مراکز تک رسائی حاصل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں پانی سے ہونے والی بیماریوں کے مسائل موجود ہیں۔

ایک تہائی خواتین میں انیمیا کے مسائل ہیں جبکہ پیدا ہونے والے اکثر بچوں کا وزن معیار سے کم ہے۔ ہماری کوششیں پاکستان کے سیلاب زدہ حالات میں ایک قطرے کی طرح ہیں۔ اس وقت ہمارے شراکت داروں کی جانب سے ریسپانس کی صلاحیت کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ عالمی ادارہ خوراک کے نمائندہ کرس کئیز نے کہا کہ ہم ابھی بھی عطیات موصول کر رہے ہیں۔ جرمنی نے ہمیں 86 ملین ڈالر فراہم کئے ہیں ۔اس برس کے اختتام یا 2023 کے آغاز تک امید ہے اتنے عطیات موصول ہو جائیں گے کہ ہم اپنے آپریشنز جاری رکھ سکیں۔نمائندہ یونیسیف سکاٹ وولری نے کہا کہ ہمیں اس ہنگامی  صورتحال میں ان تنہا بچوں، خواتین، ماؤں کا سوچنا ہے جنہیں مہینوں سے خوراک، صحت، تعلیم ، روزگار کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔

بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں ہر 8 میں سے 7 بچوں کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ صورتحال انتہائی ابتر ہے اور فوری اقدامات کی متقاضی ہے اور ہم اس صورتحال پر آنکھیں بند نہیں رکھ سکتے۔انہوں نے کہا کہ 1.7 ملین بچے سیلاب زدہ علاقوں میں خوراک کی ضروریات سے دوچار ہیں جبکہ دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے خوراک کی کمی ہے ۔انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے نوزائیدہ بچوں کا خیال رکھ سکیں۔

ہمیں ان سب کے لئے وسائل کی ضرورت ہے۔ 2 برس سے کم عمر بچوں میں قلت خوراک کا شدید مسئلہ موجود ہے۔ میڈیا سے درخواست ہے کہ اس صورتحال کو اجاگر کریں ۔ ان بچوں کو تحفظ اور سکول تک پہنچنے کے لیے برسوں درکار ہیں۔ اگر وقت پر اقدامات نہ ہو سکے تو یہ بچے کبھی سکول نہیں دیکھ سکیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں جولین ہارنیز نے کہا کہ اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک خود مختلف اقسام کے بحرانوں سے گزر رہے ہیں جن میں اقتصادی، توانائی سمیت دیگر بحران شامل ہیں،اسی وجہ سے اقوام متحدہ کی نظر ثانی شدہ اپیل کا جواب اس طرح سے نہیں مل سکا۔