اسلام آباد۔21اگست (اے پی پی):پاکستان نے زیتون کے پودوں کی پیداوار میں خودکفالت حاصل کر لی ہے اور اب مقامی نرسریوں کے ذریعے سالانہ 30 لاکھ تک پودے تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سرکاری ادارے سینٹر آف ایکسیلنس فار اولیو ریسرچ اینڈ ٹریننگ (سیفورٹ)، چکوال کے پرنسپل سائنسدان ڈاکٹر محمد رمضان انصر نے’’ویلتھ پاکستان ‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان ماضی میں ہر سال 7 سے 8 لاکھ زیتون کے پودے درآمد کرتا تھا لیکن اب یہ مکمل ضرورت مقامی سطح پر پوری کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیفورٹ نے طریقہ کار وضع کئے، پرائیویٹ نرسریوں کو سہولتیں فراہم کیں اور ٹیکنالوجی کی منتقلی یقینی بنائی تاکہ کسانوں کو معیاری پودوں کی مستقل فراہمی جاری رکھی جا سکے۔ڈاکٹر رمضان انصر نے بتایا کہ سیفورٹ نے مختلف ممالک سے 86 اقسام کی سکریننگ کی اور ان میں سے 22 کو تجارتی بنیادوں پر منتخب کیا ہے۔ پاکستان میں اب یونان کی کورونیکی (Koroneiki)، اٹلی کی کورٹینا (Coratina) اور فرانٹویو (Frantoio)، جبکہ سپین کی اربیکوینا (Arbequina) اور مانزانیلا (Manzanilla) جیسی عالمی معیار کی اقسام کامیابی سے کاشت کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کسانوں کی معاونت کے لئے سیفورٹ زیتون کی کاشت کاری کے مختلف کلسٹرز میں زرعی گریجویٹس تعینات کرے گا جو کسانوں کو رہنمائی اور تربیت فراہم کریں گے۔ اسی کے ساتھ عوامی و نجی شعبے کے 100 ماسٹر ٹرینرز کو بھی پوٹھوہار ریجن میں تیار کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر رمضان انصر نے کہا کہ سیفورٹ نے زیتون سے بننے والی مصنوعات جیسے اچار، جام، چٹنی اور بیکری آئٹمز کے لئے معیاری تراکیب تیار کر لی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ صرف پنجاب میں 20 کمرشل برانڈز اور ملک بھر میں تقریباً 48 کمپنیاں ان فارمولیشنز کو استعمال کر رہی ہیں۔ان کے مطابق 2017 سے اب تک ملک بھر میں تقریباً 40 کولڈ پریس یونٹس زیتون کے تیل نکالنے کے لئے نصب کئے گئے ہیں لیکن بڑھتی ہوئی کاشت کو دیکھتے ہوئے آئندہ برسوں میں ایسے سینکڑوں یونٹس درکار ہوں گے۔
ڈاکٹر رمضان نے پوٹھوہار ریجن کی استعداد کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں 7 لاکھ ایکڑ سے زائد بنجر اور پتھریلی زمین زیتون کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کی زمین پر دیگر کوئی تجارتی سرگرمی ممکن نہیں لیکن زیتون بہترین طور پر پھلتا پھولتا ہے۔انہوں نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ اس شعبے میں ترقی کا آغاز 09-2008 میں پنجاب کے مختلف اضلاع اور ماحولیاتی زونز میں ٹرائلز سے ہوا اور 2015 میں کسانوں کو آزمودہ اقسام اور تکنیکی معاونت فراہم کی گئی۔
سیفورٹ پاکستان کا پہلا ادارہ ہے جو زیتون کے لئے مکمل ویلیو چین آر اینڈ ڈی سپورٹ مہیا کرتا ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ پنجاب حکومت نے حال ہی میں ایک نئی سکیم کے تحت 3,625 ایکڑ رقبے پر زیتون کی کاشت کا منصوبہ شروع کیا ہے، اس مقصد کے لئے اہل کسانوں سے 15 نومبر تک درخواستیں طلب کر لی گئی ہیں۔
یہ تین سالہ منصوبہ سبسڈی کی بنیاد پر نافذ کیا جائے گا۔ڈاکٹر رمضان انصر کے مطابق اس منصوبے کی پہلی نوعیت یہ ہے کہ محکمہ زراعت کے تمام ونگز کسانوں کی سہولت کے لئے ایک مربوط طریقہ کار اپنائیں گے۔ پہلے سال 1,000 ایکڑ پر پودے لگائے جائیں گے اور کسانوں کو فی ایکڑ 57,960 روپے سبسڈی دی جائے گی۔ اس منصوبے (28-2025) کے دوران مجموعی طور پر 5 لاکھ 83 ہزار 625 زیتون کے پودے لگائے جائیں گے جبکہ فی ایکڑ 161 پودے لگائے جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے میں صرف وہ کسان درخواست دے سکتے ہیں جن کے پاس کم از کم پانچ ایکڑ اراضی ہو، تاہم ترجیح ان علاقوں کو دی جائے گی جہاں زیتون کی کاشت پہلے سے موجود ہے۔ لیکن پانچ ایکڑ یا اس سے زیادہ رقبے پر باغات لگانے کے لئے ڈرپ اریگیشن کا ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ڈاکٹر رمضان انصر نے مزید کہا کہ اس سکیم میں شامل کسانوں پر لازم ہوگا کہ وہ زمین کو کم از کم 10 سال تک برقرار رکھیں اور اگر کوئی پودا خشک ہو جائے تو اس کی تبدیلی اپنے وسائل سے کریں۔