اسلام آباد۔30اکتوبر (اے پی پی):وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ تجارتی اور سرمایہ کارانہ تعلقات کو چین پاکستان آزادانہ تجارت کے معاہدے کے دوسرے مرحلے کے تحت وسعت دینا چاہتا ہے تاکہ صنعتی تعلقات میں بھی بہتری آئے، ہم اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ باہمی احترام اور تعاون کے جذبہ کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں، اقوام متحدہ کے چارٹرکے تحت مسئلہ کشمیر سمیت تمام حل طلب تنازعات کا مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعہ پرامن حل چاہتے ہیں،
پاکستان ایک مضبوط، پائیدار اور جامع اقتصادی ترقی کی راہ پرگامزن ہے، پاکستان چینی کمپنیوں کو صنعت، زراعت، انفراسٹرکچر، گرین انرجی اور ڈیجیٹل معیشت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے پرکشش مواقع فراہم کرتا ہے، پاکستان میں کام کرنے والے چینیوں اور ان کے منصوبوں کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے، پاکستان اور چین اپنے عوام کے روشن مستقبل کے ساتھ ساتھ خطہ کے امن و استحکام کیلئے تاریخ کی طرف سے ڈالی گئی ذمہ داری کو نبھانے کیلئے پرعزم ہیں۔
چینی اخبار گلوبل ٹائمز میں اپنے لکھے گئے ایک آرٹیکل میں وزیراعظم نے کہا کہ کنفیوشس نے ایک بار ان روشن الفاظ میں دوستوں اور دوستی کے الفاظ کو پیش کیا کہ اچھے دوست تین قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو براہ راست اور ایماندار ہوتے ہیں، دوسرے وہ جو بھروسہ مند ، قابل اعتماد اور فیاض ہوتے ہیں اور تیسرے وہ جب آپ کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ آپ کی رہنمائی کرتے ہیں اور وہ آپ کو ایسا راستہ دکھانے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں جو آپ نہیں دیکھ سکتے۔
چین پاکستان دیرینہ دوستی ان تینوں صفات پر پورا اترتی ہے، پاک چین دوستی جیسا کوئی رشتہ نہیں جو ہمارے لوگوں کی روح کو گہرا کرتا اور مضبوط جذبات کو ابھارتا ہو۔ وزیراعظم نے لکھا کہ جذباتی لہجے کے ساتھ شاعرانہ تاثرات کا استعمال ان شاندار رشتوں کے جوہر کو موہ لینے کیلئے ہوتاہے، نسل در نسل منتقل ہونے والے پرتشدد دور میں باہمی تعاون اور یکجہتی کی چھونے والی کہانیاں ہمارے اجتماعی شعور کاایک ناقابل تسخیر عنصر بن چکی ہیں، ہمارے عوام کے جوش و جذبہ سے پروان چڑھ کر اورقیادت کے ویژن سے آگے بڑھ کر پاک چین دوستی کا بیج گہری جڑوں اور مضبوط شاخوں کے ساتھ ایک سدابہار درخت کی شکل اختیار کر چکاہے، اس نے اندرونی اور بیرونی تبدیلیوں کو برداشت کیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کیلئے چین کے ساتھ تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد ہیں، چین میں پاکستان کوآئرن برادر کہا جاتا ہے جبکہ ہمارے تعلقات کو دنیا میں منفرد مضبوطی، پائیدار استحکام اور قابل اعتبار بنیادوں پر سراہا جاتا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد ایک ایسے وقت میں چین کے دورہ پر ہوں گا، جب چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 20ویں قومی کانگریس کامیابی سے اختتام پذیر ہوئی اور چین کی ترقی کے نئے دور کے آغازپراپنے بھائی جنرل سیکرٹری شی جن پنگ اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کو دلی مبارکباد پیش کرنا چاہتاہوں۔
وزیراعظم نے کہا کہ انہیں پورا اعتماد ہے کہ یہ دور دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے ایک روشن باب کا آغاز بھی ثابت ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ چین کے گذشتہ دوروں کے دوران اس کی تیزرفتار ترقی اور اس ترقی کے رازوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی، اپنے سیاسی کیرئیر کے آغاز سے ہی چین کی تہذیبی اخلاقیات، تاریخی تجربات، عالمی سیاست اور معیشت کا مرکز بننے کیلئے چین کی کامیابیاں میرے لئے ناقابل بیان تجسس کا موضوع رہی ہیں۔ میں چینی عوام کی بے لوث لگن، محنت اور مشقت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں جس میں قیادت کی جانب سے طے کردہ قومی اہداف کو حاصل کرنے کیلئے چینی رفتار قابل ذکر ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے میں نے صوبہ کی سماجی اور اقتصادی ترقی کیلئے اسی جذبہ سے کام کرنے کی کوشش کی، بطور وزیراعظم پاکستان میں اپنے ترقیاتی اہداف کے حصول کیلئے اسی طرح کے جذبہ کے ساتھ کام کرنے کیلئے پرعزم ہوں۔
وزیراعظم نے کہا کہ چین کے میرے گذشتہ دورہ کے بعد سے بین الاقوامی منظرنامے میں بے مثال تبدیلیاں آئی ہے جو جغرافیائی سیاسی کشیدگی، تنازعات، نظریاتی تقسیم، اقتصادی اور تکنیکی طورپر تنزلی اور مہنگے ہتھیاروں کی دوڑ کا باعث بن رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ یہ سب ایک ایسے وقت میں وقوع پذیر ہو رہا ہے جب انسانیت کا ایک ہجوم غربت، امراض اور افلاس کا شکار ہے، دنیا کے بہت سے حصوں میں لوگ ابھی تک کووڈ 19 اور اس کے اثرات سے نمٹ رہے ہیں، آب وہوا کی تبدیلی کا چشمہ بڑے پیمانے پرپھیل رہا ہے جو آج کی ایک تلخ حقیقت ہے، پاکستان حالیہ تباہ کن سیلاب کی شکل میں اس کا شکار ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ 21ویں صدی کے تقاضے ابھرتے ہوئے چیلنجوں کے ساتھ ساتھ مواقع سے نمٹنے اور اپنے خطہ کو تنازعات اور افراتفری سے دور کرنے کیلئے ایک نئے دورکا تقاضا کرتے ہیں، ہم اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ باہمی احترام اور تعاون کے جذبہ کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں اور تنازعہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب تنازعات کا مذاکرات اور سفارتکاری کیلئے پرامن حل چاہتے ہیں، ان تمام چیلنجوں کی نوعیت اور آغاز منفرد ہے اور ان پرتوجہ نہ دی جائے تو یہ عالمگیریت کو پلٹ سکتے ہیں اور انسانیت کی عظیم قربانیوں کو ختم کر سکتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ چینی صدر شی جن پنگ نے اکثرکہا ہے کہ عالمی کارروائی ردعمل اوریکجہتی کی ضرورت ہے اس کھلتے ہوئے عالمی منظر نامے کے درمیان چین پاکستان تذویراتی شراکت داری میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، جغرافیاتی تقاضوں ،مشترکہ نکتہ نظر، توسیع پذیر اقتصادی شراکت داری اور تقدیر کے شدید احساس نے ہمیں فطری شراکت داربنا دیا ہے، پاکستان دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید گہراکرنے، بنیادی مسائل پرباہمی تعاون جاری رکھنے، علاقائی امن وروابط کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھنے اور تعاون کی ہماری آزمودہ تذویراتی شراکت داری کو اعتماد اور قریبی تعاون کی نئی بلندیوں تک بتدریج لے جانے کیلئے پرعزم ہے۔
انہوں نے کہا کہ کووڈ19 وبائی مرض کے بعد چین نے پاکستان کے ساتھ جویکجہتی اور امداد فراہم کی ہے وہ ہماری کل وقتی دوستی کی واضح مثال ہے، ہنگامی طبی سامان کی 60 سے زائد امدادی پروازیں پاکستان بھیجی گئیں، چینی ساختہ ویکسین ملک بھر میں ہماری حفاظتی ویکسینیشن مہم کا بنیادی مرکز تھیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسی طرح پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب کے بعد چین کی اعلیٰ قیادت، مرکزی و صوبائی حکومتوں، کاروباری اداروں اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے عام لوگ پاکستان کی مدد کیلئے آگے آئے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ پاکستان میں سیلاب کے کرب ناک مناظر دیکھنے والے بچوں نے بھی اپنا جیب خرچ عطیہ کیا، یہ متحرک کہانیاں ہمارے لوگوں کے درمیان گہرے تعلق اور قریبی برادرانہ رشتوں کی عکاسی کرتی ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان آج اپنے آپ کو بے مثال تبدیلیوں کے دھانے پردیکھ رہا ہے جب وہ ایک مضبوط، پائیدار اور جامع اقتصادی ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے، دیگرممالک کی طرح پاکستان کی معیشت کو بھی عالمی معاشی سست روی ، خوراک اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور سپلائی چین میں رکاوٹوں کی وجہ سے کئی چیلنجوں کا سامنا ہے،
عالمی اقتصادی مشکلات کے باوجود ہماری حکومت اپنے مقامی وسائل اور ہمارے لوگوں کی خوشحالی اور ترقی کو یقینی بنانے کی صلاحیت کو بروئے کارلانے کیلئے پوری تندہی سے کام کر رہی ہے، ان مقاصد کے حصول کیلئے ہم چین کی کامیابیوں سے تحریک لیتے ہیں خواہ وہ ایک معتدل خوشحال معاشرے کی تعمیر کا پہلا صد سالہ ہدف حاصل کرنا ہو یا ہر لحاظ سے ایک جدید سوشلسٹ ملک کی تعمیرکے دوسرے صد سالہ ہدف کو پورا کرنے کیلئے اس کی کوششیں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کا سب سے بڑا سرمایہ کاری کا شراکت دار ہے، ہم چین پاکستان آزاد تجارتی معاہدے کے دوسرے مرحلہ کا بہترین استعمال کرتے ہوئے اور صنعتی تعاون کوبڑھا کر ان تعلقات کومزید وسعت دینا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان چین کیلئے مینوفیکچرنگ بیس اور اس کے صنعتی اور سپلائی چین نیٹ ورک کی توسیع کے طورپر کام کر سکتا ہے،60 فیصد سے زائد نوجوانوں، باصلاحیت انسانی وسائل اور بے پناہ ترقی کی صلاحیت کے ساتھ ایک بڑھتی ہوئی مارکیٹ کے ساتھ پانچویں بڑی آبادی والے ملک کے طور پر پاکستان چینی کمپنیوں کو صنعت ، زراعت کی جدت، انفراسٹرکچر، گرین انرجی اور ڈیجیٹل معیشت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے پرکشش مواقع فراہم کرتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ زمانہ قدیم سے ہی پاکستان کی زرخیز دریائی وادیاں برصغیر کے اناج کا مرکز رہی ہیں، زراعت کے شعبہ میں تعاون بڑھاتے ہوئے دونوں ممالک کارپوریٹ فارمنگ، پانی کے مناسب استعمال ، ہائبرڈ بیجوں، زیادہ پیدار والی فصلوں کی ترقی اور کولڈ سٹوریج چین قائم کرنے کیلئے دوطرفہ تعاون کو تیز تر کر سکتے ہیں، اس تعاون نے غذائی تحفظ سے متعلق مشترکہ خدشات کو دور کرنے کیلئے ایک اضافی اہمیت اختیار کر لی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی انسانیت کی بقاء کیلئے ایک خطرہ ہے، پاکستان میں حالیہ غیرمعمولی سیلاب سے ہمارا ایک تہائی علاقہ ڈوب گیا، 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد لوگوں کوبھاری معاشی نقصان پہنچا، ماحولیات سے پیدا ہونے والی تباہی بیداری کی ایک کال ہے اور اس کے سدباب کیلئے مشترکہ کاوشوں کیلئے خبردار کرتی ہے، چین موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے آواز اٹھا رہا ہے اور اس نے اس تباہی سے نمٹنے کیلئے اپنے طریقہ کار کواپ گریڈ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ابتدائی وارننگ سسٹم، لچک دارانفراسٹرکچر کی تعمیر اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں چین کی تکنیکی ترقی سے سیکھنے کے منتظر ہیں، علم پرمبنی معیشت قومی ترقی کے نئے محرک کے طور پرابھری ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہم ای کامرس ٹیکنالوجی پارکس کے قیام اور سمارٹ شہروں پر توجہ دے رہے ہیں، سائنس و ٹیکنالوجی میں ہم چین کی تیز رفتار ترقی کوسراہتے ہیں اور ابھرتی ہوئی اور سمارٹ ٹیکنالوجیز میں تعاون کوبڑھانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان چینی صدر شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ابتدائی شراکت دار ہے، ہم نے صدر شی کے عالمی ترقیاتی اقدام کی بھی بھرپور حمایت کی ہے جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کی تکمیل کرتا ہے اور اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز 2030ء کے نفاذ میں معاون ہو گا، پاکستان ایک اہم شراکت دار کے طور پر جی ڈی آئی کے اہداف کو پورا کرنے کیلئے چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہے، بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے پرچم بردار کے طور پر چین پاکستان اقتصادی کوریڈور نے چند سال کے مختصر عرصہ میں ہماری سماجی و اقتصادی ترقی میں نئی جان ڈالی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کا باقاعدہ آغاز سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ہوا تھا بطور وزیراعلیٰ پنجاب میں نے اس وقت توانائی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے بہت سے اہم منصوبوں کو ریکارڈ مدت میں مکمل کر کے اس وقت حکومت کی مدد کی، ان میں ساہیوال میں کول پاور پلانٹس، قائداعظم سولر پاور پارک اور پاکستان کی پہلی لاہور اورنج لائن ماسک ٹرانزٹ شامل ہیں، یہ منصوبہ پاکستان اور اس کے بعد خطہ کیلئے گیم چینجر کے طورپر ہماری حکومت کے ترقیاتی ایجنڈے کا ترقیاتی ستون ہے، اس کے تحت توانائی اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچہ کے منصوبوں کی کامیابی سے تکمیل نے پاکستان کی اقتصادی بحالی اور متنوع شعبوں میں تعاون کیلئے ایک مضبوط بنیاد رکھنے کی منزلیں طے کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کے اعلیٰ معیار کی ترقی کے اگلے مرحلہ میں صنعت، توانائی، زراعت،ریل اور سڑکوں کے نیٹ ورک، گوادر پورٹ کوتجارت اور ترسیل، سرمایہ کاری اور علاقائی رابطوں کے مرکز کے طورپر ترقی دینے جیسے اہم شعبوں کو شامل کیا جائے گا، ہمارا مجموعی مقصد پاکستان کی جامع اور پائیدارترقی، سماجی و اقتصادی ترقی اور اپنے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے سی پیک کی صلاحیت کو بروئے کار لانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چینی عملہ اور منصوبوں کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے، پاکستان میں قیمتی چینی جانوں کاضیاع ہمارا نقصان ہے، ہم کسی کو اپنی قریبی دوستی اورمضبوط اقتصادی شراکت داری کو نقصان نہیں پہنچانے دیں گے، ہماری حکومت ان قابل مذمت حرکتوں کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ مبصرین کے نزدیک پاکستان اور چین کی دوستی ان کے متعلقہ قومی مفادات کے تحت چل سکتی ہے ، جغرافیائی قربت اور ماضی کے تجربات کی مشترکات نے ہمیں اکٹھا کیا ہو گا لیکن پاکستان میں ہمارے لئے اور حقیقی معنوں میں ہمارے دونوں ممالک کے لوگوں کے برادرانہ رشتے بہت گہرے ہیں جو بین الریاستی تعلقات کے عمومی اصولوں سے بالاتر ہیں اور ہمیں ایک ابدی اور لازوال رشتے میں پروتے ہیں،
اپنے دوطرفہ ثقافتی تبادلوں کووسعت دینے اور دونوں ممالک کے لوگوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لانے کیلئے اپنی کوششوں کوتیز کرتے ہوئے ہمیں اپنے نوجوانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ تبادلوں کی حوصلہ افزائی کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ہماری دوطرفہ دوستی کی بہترین روایات کو آگے بڑھا سکیں اور ہمیں اس کی اہمیت سمجھنے میں مدد فراہم کریں،
تیزی سے بدلتی دنیا میں پاکستان اورچین دونوں اپنے عوام کے روشن مستقبل کے ساتھ ساتھ خطہ کے امن و استحکام کیلئے کردار ادا کرنے کیلئے ایک مشترکہ ویژن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، یہ ایک ذمہ داری ہے جو تاریخ نے ہمارے کندھوں پر ڈالی ہے اور ہم اسے ضرور نبھائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ہمارا رشتہ جسے صدر شی نے اپریل 2015ء میں پاکستان کی پارلیمان سے اپنے خطاب میں پہاڑوں سے اونچا، سمندروں سے گہرا اور شہد سے میٹھا قرار دیا تھا ہماری مشترکہ خواہشات کو حاصل کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔