پاکستان کا آئین اقلیتوں کی آزادی کا محافظ ہے، موجودہ حکومت ایک ایسا پاکستان چاہتی ہے جس میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو،مقررین

143
ریاست مدینہ جدید اسلامی فلاحی مملکت کا تصور اور اسلامی تاریخ کی اساس اور بنیاد ہے، وفاقی وزیرمذہبی امور پیرنورالحق قادری

اسلام آباد۔17نومبر (اے پی پی):پاکستان کا آئین اقلیتوں کی آزادی کا محافظ ہے، موجودہ حکومت ایک ایسا پاکستان چاہتی ہے جس میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک،یا امتیازی رویہ نہ ہو، وزیراعظم عمران خان اور ریاست پاکستان کا موقف بہت واضح ہے کہ ہم نے نبی اکرم ۖ ﷺکی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے، اسی لئے سیرت اتھارٹی قائم کی گئی ہے۔

ان خیالات کا اظہار بدھ کو مقررین نے رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری نے کہا کہ آج کے دن کو اقوام متحدہ نے برداشت اور رواداری کے حوالے سے مختص کیا ہے تاکہ بات کی جا سکے کہ دنیا کو تمام تفرقوں سے پاک کیا جائے، امتیازات اور تفرقے کی خاتمے کی ہم بات کریں۔ انہوں نے کہا کہ رابطہ عالم اسلامی کو خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ مختلف الخیال لوگوں کو ایک جگہ پر اکٹھا کرنا بہت قابل تحسین اقدام ہے۔

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے اور ان کے حبیب حضرت محمدﷺ ۖ رحمة اللعالمین ۖ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1200 علماء کرام نے سعودی عرب میں اس بات پر دستخط ثبت کر دیئے کہ ہم بابائے آدم کی اولاد ہیں اور کوئی نسلی، رنگ، زبان، مذہب اور عقیدے کے امتیازات پر ہم نے یقین نہیں رکھنا اور ایک دوسرے کو ہر حالت میں برداشت کرنا ہے، آج پوری دنیا مذہبی آزادیوں، مذاہب کے احترام اور رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازات اور تفرقے کے خاتمے کی بات کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں، اگر بات کی جائے کہ ہم مسلمانوں کے لئے مذہبی آزادی مانگتے ہیں تو ہمیں اپنا دل اتنا بڑا رکھنا ہو گا کہ ہم دیگر مذاہب کی آزادی کی بات بھی کریں۔ انہوں نے کہا کہ حضرت عمر فاروق نے جب بیت المقدس کو فتح تو ان سے کسی نے پوچھا کہ یہودیوں کے کیا حقوق ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ جو حقوق ہمارے ہیں،

وہی حقوق ان کے بھی ہیں اور ان کی وہی ذمہ داریاں ہیں جو ہماری ذمہ داریاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دین کے معاملے میں کسی پر جبر اور زبردستی کی کوئی معاشرہ، دستور اور ضابطہ حیات اجازت نہیں دیتا، پاکستان کا آئین اقلیتوں کی آزادی کا محافظ ہے، موجودہ حکومت ہم ایک ایسا پاکستان چاہتی ہے جس میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک، امتیازی رویہ نہ ہو۔

وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی و پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ آج جب پوری دنیا میں رواداری کا دن منایا جا رہا ہے، پیغام اسلام پیغام امن و سلامتی ہے، بیت اللہ میں کسی سے نہیں پوچھا جاتا کہ کس فرقے یا مسلک سے ہو، ایک امام کے پیچھے سب نماز ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام کا دہشت گردی اور انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسلام کی ترجمانی اور اسلام کے پیغام امن و رواداری کو دنیا پھیلانے میں مملکت سعودی عرب اور رابطہ عالم اسلامی کا جو کردار ہے وہ قابل تحسین ہے۔

انہوں نے کہا کہ یورپ اور امریکہ میں جہاں جہاں اسلام فوبیا کے خطرات بڑھ رہے ہیں، اسلام کے نام پر جو تہمتیں لگ رہی ہیں، ان حالات میں رواداری، امن، محبت، اخوت، پیار کی بات کرنا بہت مشکل کام ہے، آج جو آواز یہاں سے بلند کی جا رہی ہے، وہی بات مسلمانوں اور اسلام کی بات کی ہے، اسلام جبر کا قائل نہیں ہے، اسلام محبت اور اخوت کا قائل ہے۔

انہوں نے کہا کہ مکہ مکرمہ میثاق مکہ ہوا اور اسلام آباد میں پیغام پاکستان جاری کیا گیا، دونوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ اس بات کو اجاگر کیا جائے کہ اسلام امن، محبت، رواداری اور اخوت کا دین ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور ریاست پاکستان کا موقف بہت واضح ہے کہ ہم نے نبی اکرمﷺ ۖ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے، اسی لئے سیرت اتھارٹی قائم کی گئی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (س) کے رہنما مولانا حامد الحق حقانی نے کہا کہ رابطہ عالم اسلامی مسلم ممالک کے درمیان رابطہ کاری کے لئے اہم کردار ادا کر رہا ہے،

رابطہ عالم اسلامی او آئی سی کے ذریعے تمام مسلم ممالک کو ایک میز پر بٹھائے گی اور ان مسلم ممالک کے حل کے لئے اہم کردار ادا کرے گی،مغرب کے ممالک کو اسلام کو سمجھنے میں مشکلات درپیش ہیں ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے، اسلام سلامتی کا مذہب ہے، ‘جیو اور جینے دو’ کی پالیسی اپنائی جائے تو دنیا کے مسائل ختم ہو سکتے ہیں، جنگیں ختم ہو سکتی ہیں اور امن و سلامتی سے دنیا رہ سکتی ہے۔

سیمینار سے رابطہ عالم اسلامی کے ریجنل ڈائریکٹر سعد مسعود الحارثی نے کہا کہ آج ہم برداشت کا عالمی دن منا رہے ہیں جو ہمیں باہمی مفاد میں میل جول کی یاددلاتا ہے ۔ باوجود اس بات کے کہ ہمارے درمیان مذہبی ، فکری اور ملکی اختلافات ہیں ، یہ اسلام میں رواداری کے مسلمہ اصول کا مظہر ہے جسے کسی طور پر تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

اسلام سب کے درمیان امن اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے واضح رہنمائی فراہم کرتا ہے ، اسلام نیکی اور احسان کا درس دیتا ہے ، اسلام فرق ، تنوع اور تکثریت کے احترام کی تلقین کرتاہے ، اسلام نسل انسانی کا احترام کرتا ہے اور انسانیت کو ایک خاندان کے بندھن میں پروتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مثیاق مدینہ انسانی تاریخ کی ایک عظیم دستاویز ہے، اسی میثاق کے اصولوں پر کارفرما ہوتے ہوئے 24رمضان المبارک 1440ہجری کو خانہ کعبہ کے ساتھ ”اعلان مکہ ” جاری کیا ۔ اس اعلامیے کو (1200) مفتیان کرام اور (4500) مذہبی سکالرز نے (27) مختلف فرقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے وضع کیا، یہ تمام لوگ تاریخ میں پہلی مرتبہ رابطہ عالمی اسلامی کی چھتری تلے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے۔

اس اعلامیے میں بہت سارے مسائل پر توجہ دی گئی مگر اس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان تمام تر تنوعات کے باوجود انسانیت کے رشتے میں منسلک ہیں جو ہر ایک کو برابر عزت و احترام کا حقداربناتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذاہب کے درمیان پرامن بقائے باہمی ایک اختیاری اصول نہیں ہے دراصل یہ ایک ناگزیر مذہبی ، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے ۔ اگر بقائے باہمی انصاف اور باہمی احترام کے اصول پر قائم ہو تو معاشرے پر اس کے ٹھوس اور دوررس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ بقائے باہمی کا معاملہ ایک الہامی امر ہے اس کے بعد ہی ہم اپنے تنوع اور کثرتیت کے باوجود خاندان انسانیت کے مشترکہ بندھن میں بندھ سکتے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ انسانیت کے مفاد کو دیگر تمام مفادات پر ترجیح دی جائے ،

یہ منزل صرف اور صرف تمام مسائل پر قومی مکالمے کو فروغ دے کر اس مشترکات کو تلاش کر کے اور ان کو اپنا کر ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ سیمینار سے سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز اور پیر نقیب الرحمن نے بھی خطاب کیا۔