اسلام آباد۔20اکتوبر (اے پی پی):وفاقی وزیرمنصوبہ بندی ، ترقی ،اصلاحات و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا ہے کہ آج پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج داخلی طور پر متحد ہونا ہے، معاشرے اور ذہنوں سے نفرت کو ختم کرنا بہت ضروری ہے، انتہاپسندی کی قیمت سب سے زیادہ پاکستان نے ادا کی۔جمعرات کومعاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے موضوع پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ 1947میں برصغیر کے مسلمانوں نے یہ الگ وطن حاصل کیا۔ آج بھارت میں ہونے والے مظالم قائداعظم کے نظریے کو درست ثابت کر رہے ہیں ۔ آج پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج داخلی طور پر متحد ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاشرے اور ذہنوں سے نفرت کو ختم کرنا بہت ضروری ہے، دنیا میں سب سے زیادہ انتہاپسندی کی قیمت پاکستان نے ادا کی۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں سے مخاطب ہونے کیلئے یہاں آیا ہوں، ہم پاکستان کی 75 ویں سالگرہ منارہے ہیں، اگر ہم ہندوستان میں رہتے تو ہمیں معاشی اور معاشی سہولیات نہ ملتیں۔ جب ہم نے خود ہندوستان میں خود کو غیر محفوظ سمجھا تو الگ رہاست کیلئے کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کی گورننس کو انکلوسیو گورننس بننا ہوگا جس کے لئے ہم نے تعصب اور نفرت کو بالائے طاق رکھنا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کامیاب معاشرہ وہ ہوتا ہے جس میں مثبت سینیرجی پائی جاتی ہے۔
ہماری کرکٹ ٹیم میچ کھیلتی ہے کبھی لگتا ہے یہ 50 کھلاڑیوں جتنا کھیل رہی ہے۔ کبھی ٹیم کو دیکھ کر لگتا ہے یہ 11 نہیں ایک دو کھلاڑی کھیل رہے ہیں۔ آج پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج اقتصاد یا معیشت نہیں،پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج "کیا ہم داخلی طور متحد ہے یا منتشر ہیں "ہے، میں خود عدم برداشت کا شکار ہوا ہوں، مجھ پر ایک نوجوان نے گولی چلائی، وہ گولی ابھی تک میرے جسم میں ہے، وہ گولی مجھے یاد دلاتی ہے کہ معاشرے سے نفرت کو ختم کرنا لازمی ہے۔
احسن اقبال نے کہاکہ پاکستان نے انتہاپسندی کی سب سے زیادہ قیمت ادا کی۔ انتہاپسندی کی سب سے بنیادی وجہ انسان کی چیزوں کو پرکھنے کی صلاحیتوں کو کھودینا ہے۔ انسان کے دماغ میں اگر نفرت کے وائرس کو داخل کیا جائے تو انسان کچھ کرنے قابل نہیں رہتا،میک ڈونلڈ میں چند خواتین نے مجھ پر آوازیں کسیں۔ میں نے انہیں کہا آپ تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتی ہے کوئی مسئلہ ہے تو بتادے، وہ پھر معافی مانگنے میرے گھر آئی، تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان کے ذہن میں نفرت ڈال دی گئی تھی۔
انہوں نے کہاکہ ان کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا، ہمیں دوسروں کی نقطہ نظر کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے، عدم برداشت ہمیں انتہاپسندی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہم ایک دوسروں کو اختلاف کیساتھ برداشت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر کسی کا سچ ان کے اپنے تجربے اور مشاہدے پر ہوتا ہے۔
ناول تفریح اور فارغ وقت کیلئے ٹھیک ہے اسے زندگی میں اپلائی نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ جلسے میں ایک لیڈر نے میرے نام کیساتھ ڈاکو کیوں لگایا، میں سزائے موت کی سزا لے کر جیل میں کیوں رہا؟،یہ سوالات میں خود سے روز کرتا ہوں،اب ہر شہری براڈکاسٹر ہے ، ماس میڈیا سے اب ہم مائیکرو میڈیا پر چلے گئے ہیں، ہم سمجھتے تھے کہ متحدہ بھارت میں ہمیں تسلیم نہیں کیا جائے گا، 1947 سے اب تک ہم نے بہت کچھ حاصل کرلیا ہے۔