امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، جارحیت مسلط کی گئی تو اس کا منہ توڑ جواب دیں گے،وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا خطاب

83

ملتان ۔27فروری (اے پی پی):وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ پاکستان کبھی مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹا،امن کے حصول کے لیے مذاکرات ضروری ہیں، پاکستانی قوم ہمیشہ امن کو تر جیح دیتی ہے لیکن امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔اگر ہم پر جارحیت مسلط کی گئی تو اس کا منہ توڑ جواب دیں گے۔

ہفتہ کے روز 27 فروری کے تاریخی دن کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے، 27 فروری کو نپا تلا باوقار جواب دیا،ہم کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتے تھے ہم صرف دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ ہندوستان نے اگر کوئی “مس ایڈونچر” کیا تو ہم اپنے دفاع کی ہمت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔پاکستانی امن پسند قوم ہے اور ہمیشہ امن کو ترجیح دیتی ہے۔امن کا راستہ حاصل کرنے کیلئے مذاکرات ضروری ہیں۔

پاکستان کبھی مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹا ہے۔امن کو کو متاثر کرنے والے مسائل کو دونوں طرف حل کرنا ہو گا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ مودی حکومت نے خطے کا امن متاثر کیا ہے۔26 فروری کو بھارت نے بالاکوٹ پر حملہ کر کے سیاسی کامیابی کے لیے پلوامہ کا ڈرامہ رچایا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوگیا کہ مودی نے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے یہ اقدام اٹھایا تھا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستانی قوم ہمیشہ امن کو ترجیح دیتی ہے لیکن اگرہم پر جارحیت مسلط کی گئی تو منہ توڑ جواب دینگے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کو بتا دیا تھا کہ اگر اس نے جارحیت کی تو اس کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا نے دیکھا امن کے لیے ہم نے بھارتی پائلٹ واپس کیا،اس کے علاوہ ہم نے کرتارپور راہداری کا راستہ کھولا۔وزیر خارجہ نے کشمیر سے متعلق کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں اٹھائے جانے والے اقدامات کو کشمیری عوام نے مسترد کر دیا ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ب

رطانوی پارلیمنٹ میں کشمیر کی صورتحال پر مباحثہ ہو اور وہاں انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیاجبکہ یو این سیکرٹری جنرل نے دورہ پاکستان کے دوران مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے اندر شہری و انسانی حقوق کی پامالیاں ہو رہی ہیں۔بھارت میں بنیادی شہری قوانین پر عالمی انسانی حقوق کے ادارے نے بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ آج کشمیری، پہلے سے زیادہ بھارت سرکار سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ہندوستان کی سول سوسائٹی اور باشعور طبقہ یہ کہہ رہا ہے کہ ہماری کشمیر پالیسی درست نتائج نہیں دے رہی اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہم دل اور دماغ کی لڑائی ہار رہے ہیں۔وہ کہہ رہا ہے کہ اس سرکار کی آمد سے سیز فائر کی خلاف ورزیوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ 120 سے زیادہ نشستیں ایسی ہیں جن میں وزیر اعظم عمران خان اور دفتر خارجہ نے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور عالمی تنظیموں کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھایا۔دنیا کی پارلیمان میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بحث ہو چکی ہے۔امریکی کانگریس میں کم از کم دو قراردادیں ایسی ہیں جن میں مقبوضہ کشمیر میں عائد پابندیوں کو اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ آج ایک ایسی فضا جنم لے رہی ہے جو ہندوستان کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کیلئے مجبور کر رہی ہے۔قوم نے دیکھا کہ ہندوستان کے ڈی جی ایم او، پاکستان کے ڈی جی ایم ا و کیساتھ ہارٹ لائن پر رابطہ کرتے ہیں اور اچھے ماحول میں ہونیوالی اس گفتگو میں 2003 کے سیز فائر معاہدے کی پاسداری کا اعادہ کرتے ہیں۔پاکستان نے اسے فراخدلی سے قبول کیا ہم اسے ایک اہم پیش رفت سمجھتے ہیں۔امریکہ سمیت عالمی برادری نے اس پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے صدر نے اس حوالے سے اپنا بیان جاری کیا اور اس پیش رفت کو مثبت اور اہم قدم قرار دیا۔

اس گفتگو سے ہمیں ایک تاثر یہ بھی ملا کہ ہمیں اپنے “کور ایشوز” جو اس خطے کے امن کو متاثر کر سکتے ہیں ان کا حل تلاش کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ دانشمندانہ راستہ، گفت و شنید کا راستہ ہے۔پاکستان، ڈائیلاگ سے کبھی کترایا نہیں – پاکستان نے پہلے دن سے کہا کہ امن کی طرف آگے بڑھے-کشمیریوں کے حقوق ہم پائمال نہیں کر سکتے۔پاکستان اور ہندوستان دونوں سلامتی کونسل کی قراردادوں کے پابند ہیں ،ہمیں راستہ تلاش کرنا ہوگا اور کشمیریوں کو ان کا حق مناسب طریقے سے دینا ہو گا۔