اسلام آباد ۔ 15 اپریل (اے پی پی) پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) نے انسانی حقوق کی صورتحال{ کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ 2018 کا اجراءکر دیا ہے۔ پیر کو ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے پریس کانفرنس کے دوران سالانہ رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ میں عام انتخابات 2018ءکے حوالے سے کہا گیا کہ عام نشستوں پر خواتین امیدواروں کی تعداد پچھلے انتخاب سے زیادہ تھی اور ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ خواجہ سراءامیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ رپورٹ کے مطابق ‘2018 کا آغاز چھ سالہ بچی زینب کے ساتھ خوفناک جرم سے ہوا، اورجس جلدی سے مجرم کو سزا دی گئی اس کی بنیادی وجہ عوام کا غم و غصہ تھا۔تاہم، ۔ ایچ آرسی پی نے جو کوائف مرتب کیے ہیں ان کے مطابق، عورتوں پرجنسی تشدد کے 845 واقعات پیش آئے اورمردوں اورعورتوں دونوں کو’ عزت’ کے نام پر 316 جرائم کا نشانہ بنایا۔ 2018 میں، تھر، سندھ میں 638 بچے غذائیت کی کمی کے باعث ہلاک ہوئے۔ رپورٹ میں عاصمہ جہانگیر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کی المناک موت نے ملک کو بہادرآواز سے محروم کردیا۔ رپورٹ کے کلیدی نکات کے مطابق وفاقی پارلیمان نے 2018ءمیں کل 39 قوانین بنائے، یہ تعداد گزشتہ سال سے کچھ زیادہ ہے، 2017ءمیں 34 قوانین منظور کئے گئے تھے۔ خواجہ سراءافراد (تحفظ اور حقوق) ایکٹ 2018ءمنظور کیا گیا جو کئی معاملات کا احاطہ کرتا ہے اور خواجہ سراءافراد کو حق دیتا ہے کہ وہ مرضی کی جنسی شناخت کے مطابق اپنی پہچان کروا سکیں۔ 2000ءمیں بنائے گئے آرڈیننس کی جگہ بچوں کے نظام انصاف ایکٹ 2018ءمنظور کیا گیا۔ ۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں سائبر جرائم اور آن لائن ہراسانی میں اضافہ دیکھا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک بھر کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی سب سے بڑا چیلنج بنا رہا، ۔ رپورٹ میں نقل و حرکت کی آزادی کے حوالے سے کہا گیا کہ پاکستان میں گردوارہ دربار صاحب کو ہندوستانی پنجاب میں ڈیرہ بابانانک سے ملانے والی کرتارپور راہداری کا 28 نومبر کو سنگ بنیاد رکھا گیا۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت نے ایک تاریخی بل پنجاب سنکھ آنند کرج میرج ایکٹ 2018ءمنظور کیا جو سکھوں کی شادیوں کی انجام دہی اور اندراج کا احاطہ کرتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ طلباءیونینیں بحال کرنے کا معاملہ زیر التواءاور تصفیہ طلب ہی رہا۔ رپورٹ میں بزرگ شہریوں کے حوالے سے کہا گیا کہ بزرگ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے موجودہ قوانین کا نفاذ اور نئے قوانین بنانے کا عمل سست ہے۔ ان لوگوں کے لئے رہائش اور صحت کی سہولیات کا فقدان ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ غیر رسمی شعبہ معیشت کا 70 فیصد ہے اس کے باوجود یہ شعبہ ایمپلائز اولڈ بینیفٹ ایکٹ 1976ءکے دائرے سے باہر ہے۔ معذوری کے شکار افراد کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ معذوری کے شکار افراد پر قابل تصدیق اعداد و شمار کے باعث ان کی تعداد کے حوالے سے مختلف آراءہیں مگر ڈبلیو ایچ او کے مطابق 15 فیصد لوگ معذوری کا شکار ہیں۔ رپورٹ میں مہاجرین اور آئی ڈی پیز کے حوالے سے کہا گیا کہ نادرا کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ افغان شہریوں کی تعداد 2.8 ملین (28 لاکھ) سے زیادہ ہے جن میں سے 1.6 ملین (16 لاکھ) کے باس ثبوت برائے اندراج کارڈ ہے۔ کم از کم دس لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان شہری ملک میں رہ رہے ہیں۔ 2018ءمیں کل 13584 افغانوں کی پاکستان سے افغانستان رضاکارانہ واپسی ہوئی، یہ تعداد 2017ءسے کافی کم ہے جب 57411 افغان رضاکارانہ طور پر اپنے ملک واپس گئے تھے۔ رپورٹ میں تعلیم کے حوالے سے کہا کہ اطلاعات کے مطابق سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 22.63 ملین سے بڑھ کر 22.84 ملین ہو گئی ہے۔ ایک اور رپورٹ مثبت پیش رفت کی عکاسی بھی کرتی ہے جس میں بتایا گیا کہ چھ سے 16 برس کی عمر کے بچوں کے داخلہ کی شرح 2016ءمیں 81 فیصد تھی جبکہ 2018ءمیں یہ 83 فیصد ہو گئی ہے۔ صحت کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ شعبہ صحت پر ملک کا خرچہ اس کے جی ڈی پی کے کا ایک فیصد بھی نہیں بنتا جبکہ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ یہ 6 فیصد ہونا چاہیے۔ متعدی بیماریوں پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج رہا جبکہ غیر متعدی بیماریوں جیسے دل کی بیماری، فالج کا حملہ، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور مختلف قسم کے سرطان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں رہائشی سہولیات کے حوالے سے کہا گیا کہ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ ملک میں تقریباً 70 لاکھ سے ایک کروڑ گھروں کی قلت ہے، حکومت کا ملک بھر میں 50 لاکھ سستے گھر بنانے کا وعدہ بھی بہت بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔