لاہور۔16دسمبر (اے پی پی):سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہاہے کہ پاکستان کو موسمیاتی ایمرجنسی کا سامنا ہے، یہ دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہے، عدالتوں نے ہمیشہ موسمیاتی ایمرجنسی کے کیسز کو سنجیدہ لیا ہے ،90 کی دہائی میں انڈسٹریوں کو بند کرنے سے لیکر دیگر عوامل پر بات کی گئی، عمل درآمد کون کرے گا اس پر بات نہیں ہوئی، کلائمیٹ فنانس پر بات ہی نہیں ہوئی ، نیچر فنانس کے بغیر موسمیاتی ایمرجنسی سے لڑا نہیں جاسکتا۔
وہ سوموار کو لاہورکی نجی یونیورسٹی میں ماحولیاتی تبدیلوں سے متعلق کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کلائمیٹ فنانس ہی کلائمیٹ جسٹس ہے ، فوڈ سکیورٹی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، واٹر سکیورٹی سمیت دیگر عوامل پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہاکہ اربن پلاننگ ، ایگریکلچرل پلاننگ پر بات کرنا ہوگی، گذشتہ 7 سال میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا، کیسز میں عدالتوں نے ہدایات جاری کیں لیکن گرائونڈ پر کچھ نہیں ہوا ،پاکستان میں کلائمیٹ فنانس امید کی ایک کرن ہوگا، کلائمیٹ فنانس لوگوں کو سکیورٹی دے گا ،کلائمیٹ فنانس ہی کلائمیٹ جسٹس دے سکے گا ،آئینی اعتبار سے بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کلائمیٹ فنانس کی طرف جانا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ایڈمنسٹریشن کے مسائل ہیں ، باکو میں حکومت نے اچھی کوشش کی ،کلائمیٹ ڈپلومیسی پر جلدی کام کرنے کی ضرورت ہے ، 2017 میں قانون بنا لیکن ابھی تک اتھارٹی نہیں بنی ،ہوسکتا ہے جلد بن جائے ،2017 کے ایکٹ کے مطابق فنڈ بننا تھا ،عدالتیں سمجھتی ہیں کہ کلائمٹ فنانس کو بنیادی حق سمجھنا ہوگا ۔